عالمی عدالت کے فیصلے کو پاکستان اور بھارت دونوں نے اپنی جیت قرار دیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن کی سزائے موت پر نظرثانی کی جو ہدایت کی ہے تو اس نظرِثانی کا طریقہ کار کیا ہوگا؟
برطانوی خبر رساں ادرے کے مطابق پاکستان میں ماہرین قانون عالمی عدالت انصاف کی جانب سے کلبھوشن کی سزا پر موثر نظرِ ثانی کی ہدایت کی تشریح کے معاملے پر اختلاف رائے کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔
سینئر وکیل اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر حامد خان کا کہنا ہے کہ نظرِثانی کا عمل وہی عدالت انجام دے سکتی ہے جس نے پہلی بار سزا سنائی۔ خیال رہے کہ کلبھوشن کو یہ سزا فوجی عدالت نے سنائی تھی۔
حامد خان نے مزید کہا کہ عالمی عدالت انصاف نے فوجی عدالت کو مجاز عدالت یا فورم تسیلم کیا ہے اور اس کے دائر سماعت کوئی اعتراض نہیں اٹھایا تاہم ان کے مطابق اگر اس معاملے پر پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا جاتا ہے تو پھر صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔
عالمی قوانین کے ماہر وکیل اور قانون دان احمر بلال صوفی کا کہنا ہے کہ موثر نظرثانی سے مراد ایسا فورم ہوسکتا ہے جس میں عالمی ماہرین قانون کو بھی شامل کیا جا سکتا ہو یا پھر ملک کے ماہرین قانونِ سزا کا جائزہ لیں۔
تاہم سابق وزیر قانون بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ پاکستانی عدالتیں اس معاملے پر موثر نظرثانی کرسکتی ہیں اور عالمی عدالت انصاف نے پاکستانی عدالتوں پر اعتماد کیا ہے۔