اس مقدمے کی کہانی کا آغاز آج سے تقر یبا 26 سال قبل (29 جولائی انیس سو تر انوے) سے ہوتا ہے جب بلو چستان گورنمنٹ نے ایک امریکی کمپنی کے ساتھ ریکوڈک (پرانا نام کو ہ دل نو کنڈی سے تقریبا ستر کلو میٹر شمال مغرب ایران بارڈر کے قریب) کے پہاڑی علاقے میں سونے، تانبے اور اسکے موجود معدنی ذخائر پر ایک جامع رپورٹ اور اسکے معاشی فوائد پر ایک جوائنٹ وینچر معائدہ کیا تھا۔ اس امریکی کمپنی نے بعدازاں ایک ٹیتھیان کوپر کمپنی (اسٹر یلوی رجسٹر ڈ) کے ساتھ حصہ داری معا ہدہ کیا جس کی رو سے بلوچستان گورنمنٹ نے اس کمپنی کو 9ستمبر 2002 کو سونے، کوپر اور دیگر مو جود معدنی وسائل کی تلاش کا لائسنس جاری کیا اور اس کمپنی نے پاکستان میں اپنی ایک برانچ دفتر کھول کر کام شروع کر دیا۔
یکم اپریل 2006 کو بلوچستان گورنمنٹ نے ایک اور معاہدہ کرتے ہوئے اس منصوبے کے سارے حقوق ٹتھیان کمپنی کو دے دیے اور یوں امریکی کمپنی کی جگہ ٹیتھیان نے لے لی اور اپنا کام شروع کر دیا۔
اسی سال 2006 میں مولانا عبدالحق اور دیگر نے بلوچستان ہایئکورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کی اور معزز عدالت سے استدعا کی کہ ریکوڈک کے حوالے سے 29-07-1993 سے لیکر آج تک تمام معاہدے اور لین دین کو غیر آئینی اور غیر قانو نی قرار دیا جائے۔ بلو چستان ہائی کورٹ نے 26 جون 2007 کو یہ پٹیشن مسترد کرتے ہو ئے خارج کر دی۔ اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمی سپریم کو رٹ میں اپیل نمبر 796/2007 دائر کی گئی اور آئین پاکستان کی شق نمبر 184(3) کے تحت کئی دوسرے لوگوں نے بھی درخواستیں جمع کروائی جن پر سپریم کو رٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس جناب افتخارم حمد چودھری صا حب کی سربراہی میں تین رکنی بنچ (جسٹس گلزار احمد اور جسٹس عظمت سعید) نے سات جنوری دو ہزار تیرہ کو بلوچستان ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل منظور کرتے ہو ئے 181 صفحات پر مبنی فیصلے میں 23-07-1993 کے معاہدے اور اس کے بعد ہونے والے تمام معاہدوں کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے ٹیتھیان کمپنی کے لائسنس کو بھی منسوخ کر دیا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ٹیتھیان کمپنی نے 29-07-1993 کے معا ہدے کی شق اور پاکستان اور آسٹریلیا میں ایک باہمی معاہدہ (Investement Treaty between Pakistan and Australia) کی روشنی میں دوہزار بارہ میں عالمی بینک کے ادارے انٹر نیشنل سنٹر فارسیٹلمنٹ آف ڈسپیوٹس میں پاکستان پر تقریبا سولہ ارب ڈالر جرمانے کا دعوی کر دیا تھا۔
اس دعوے کا فیصلہ کرتے ہو ئے آئی سی آیس ڈی نے پاکستان پر تقریبا پانچ ارب ستانوے کروڑ ڈالر کا جر مانہ کر دیا ہے اور ذرائع کے مطابق اس فیصلے میں اہم بات پاکستان کے مشہور ڈاکٹر ثمر مند مبارک کا وہ بیان ہے کہ اس منصوبے سے پاکستان کو ڈھائی ارب ڈالر سالانہ کی آمدن متوقع ہے لہذ ا ٹر بیونل نے اس بات کو بنیاد بناتے ہوئے لکھا ہے کہ جہاں پاکستان کواتنا بڑ ا فائد ہ ہو رہا ہے وہاں اس کمپنی کو اسکے نقصان کا ضرور معاوضہ ملنا چاہیے۔
یہاں یہ بات کرنا بہت ضروری ہے کہ اس فیصلے سے پہلے پاکستان کے پاس مواقع تھے کہ وہ اس کمپنی کے ساتھ عدالت کے باہر کوئی تصفیہ کر لیتا اور روپورٹس کے مطابق اس تناظر میں کچھ کوششیں بھی کئی گئی۔ اس سلسلے میں بر طانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر کی بیوی جو کہ پاکستان کی طرف سے آئی سی آیس ڈی میں پیش ہو رہی تھی نے بھی یہی تجویز کیا تھا کہ اس معاملے کو مقدمے کے فیصلہ آنے سے قبل باہمی طور پر نمٹایا یا جائے۔ قانونی نقطہ نظر سے پاکستان کے پاس اب بھی اس فیصلے کے خلاف نظر ثانی کا راستہ موجود ہے اور جس کے فیصلے کو بھی دو سے تین سال لگ سکتے ہیں۔
اب یہ ہماری حکو مت پر منحصر ہے کہ وہ کیا اقدامات کرتی ہے کیونکہ ملک پہلے ہی کمزور معاشی صورتحال کا شکار ہے اور آئی ایم ایف سے چھ بلین ڈالرز کے قرضے کا معاہدہ کر چکا یہ اور یہ جرمانے کی رقم بھی تقریبا اتنی ہی ہے۔
چھ آئینی ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ نوشتہ دیوار تھا کیونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مجموعی طور پر ریاست پاکستان کے لیے آسٹریلیا کے ساتھ پہلے سے مو جو د (Investement Treaty between Pakistan and Australia) کے اور کئی بین الااقو می قوانین سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔