فخر امام نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ کٹائی کے بعد صرف 2 ماہ قبل کاشتکاروں سے 60 لاکھ ٹن گندم خریدی گئی اور اب وہ مارکیٹ سے غائب ہوگئی ہے۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 60 لاکھ ٹن گندم خریدی گئی لیکن کوئی نہیں جانتا کہ وہ کہاں گئی۔ ملک کو عوام کی ضروریات پورا کرنے کے لیے 15 لاکھ ٹن اضافی گندم درکار ہے، اس لیے 7 لاکھ ٹن گندم درآمد کی جارہی ہے جبکہ ہم نے 7 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
فخر امام کا مزید کہنا تھا کہ کسانوں نے گندم 14 سو روپے فی من فروخت کی اور اب گندم 18 سو اور 2 ہزار روپے فی من پر فروخت کی جارہی ہے۔
اس موقع پر قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے کہا کہ گندم کی بین الصوبائی نقل و حرکت پر پابندی غیر آئینی ہے اور اگر ضروری ہے تو ایوان کے سامنے اس کی جامع رپورٹ پیش کی جانی چاہیے۔
سپیکر قومی اسمبلی نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملک میں گندم وافر مقدار میں موجود تھی تو اب کہاں غائب ہوگئی۔
رکن قومی اسمبلی سردار ذوالفقار علی نے کہا کہ زراعت ایک اہم شعبہ ہے اور حکومت کو اس جانب توجہ دینی چاہیے، اور سب سے پہلے ہمیں اس سے منسلک اداروں اور زرعی جامعات کی کارکردگی بہتر بنانا ہوگی جبکہ ہمارا محکمہ ذراعت بھی کسان دوست نہیں۔ ملک میں کہیں کوئی کسان رجسٹرڈ نہیں اور نہ ہی ان کے لیے کوئی چیمبر ہے۔
انہوں نے کسانوں کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے سبسڈی دینے کی ضرورت پر زور دیا ساتھ ہی یہ تجویز بھی دی کہ زرعی اشیا کی قیمتوں کو ایک سال کے لیے منجمد کردیا جائے۔