پنجاب میں منعقد ہونے والے حالیہ ضمنی انتخابات نے وطن عزیز کے سیاسی منظرنامے میں تلاطم کے حالات پیدا کر دیے ہیں۔ 20 سیٹوں پر ہونے والے ان ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف نے 15 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ حکمران اتحاد صرف 4 نشستوں پر کامیاب ہوا۔
راولپنڈی کی سیٹ کے نتائج کو تحریک انصاف نے چیلنج کر دیا ہے جہاں ان کا امیدوار صرف 49 ووٹوں سے ہارا تھا۔ اگر راولپنڈی کا نتیجہ بھی بدل گیا جس کے امکانات بھی ہیں تو حکمران اتحاد کے پاس صرف 3 سیٹں بچ جائیں گی۔
یہ غالباً تاریخ عالم کی واحد مثال ہے کہ عدالت سے سزا یافتہ ضمانت پر رہا ہونے والی مجرمہ تواتر سے سیاست میں حصہ لے رہی ہے۔ یہ صرف وطن عزیز کے مضبوط ڈومی سائل والے افراد ہی یہ کر سکتے ہیں۔ ایک بے چارہ علی وزیر ہے جو رکن قومی اسمبلی ہونے کے باوجود ضمانت نہیں لے پا رہا اور جیل میں ہے۔
پنجاب نے کپتان کے بیانیہ کو تسلیم کر لیا ہے اور وہ بائیں اور دائیں بازو کے دانشور جو مسلسل کپتان کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہے تھے، وہ سب اوندھے منہ گر پڑے ہیں۔ عوام آگے نکل گئے ہیں اور دانشور پچھے رہ گئے ہیں۔
کپتان کو بیانیہ تشکیل دینے پر ملکہ حاصل ہے۔ اس سے پہلے 2018ء کے الیکشن انہوں نے کرپشن کے خلاف بیانیہ پر جیتے تھے۔ تاہم اقتدارِ میں آنے کے بعد پہاڑ جیسی توقعات پر پورا نہ اترنا، کورونا وبا، اتحادیوں کا دباؤ اور پنجاب میں عثمان بزدار نے رہی سہی کسر پوری کر دی تھی جس سے تحریک انصاف کی مقبولیت بہت کم ہو گئی تھی۔
مگر مبینہ طور پر ہونے والے آپریشن رجیم چینج کے بعد کپتان نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے ایسا کمال کا بیانیہ تشکیل دیا کہ اخبارات، رسائل، نشریاتی ذرائع ابلاغ کے بغیر ہی ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی جو قابل تعریف ہے۔
اب وہ پنجاب میں حکومت سازی کر سکتے ہیں۔ مسلم لیگ قاف کے ساتھ مل کر ان کے پاس 186 اراکینِ پارلیمان پورے ہو گئے ہیں۔ امید ہے چودھری پرویز الٰہی جیسے گھاگ اور تجربہ کار سیاست دان کو وزیراعلیٰ بنا کر پنجاب کی ہیت مقتدرہ کے ساتھ مل کر بہتر طور پر حکومت کریں گے۔
کپتان کے لیے یہ سیاسی دنگل کوئی آسان نہیں تھا۔ پی ڈی ایم کے مقابلے میں اکیلے عمران خان نے ثابت کیا کہ اگر آپ کے حوصلے پہاڑ جیسے ہوں تو آپ سارے میدانوں میں کامیاب رہتے ہیں۔ عوام کی اکثریت نے بدعنوانیوں میں ملوث افراد کو مسترد کر دیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے دسترخوان کے رسیا صحافی کل سے یہ ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ مریم نواز نے شکست تسلیم کرکے بہت بڑے پن کا مظاہرہ کیا ہے۔ جھوٹ بالکل غلط، مریم نواز کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
ضمنی انتخابات میں بدترین شکست کے بعد وہ کیا بیان دیتیں؟ مرکز اور پنجاب میں ان کی حکومت تھی۔ کماندار کے ساتھ ان کی جماعت کے تعلقات بہتر ہیں۔ ادارے ان کے ماتحت ہیں۔ ویسے بھی اس شکست کے بعد حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ کے خاتمے اور شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
حرف آخر وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کی ساری فرعونیت ان کے گلے پڑ گئی ہے۔ جو آنسو گیس کے شیل انہوں نے نہتے سیاسی کارکنوں پر مارے تھے، وہ عوام نے ووٹوں کی صورت میں ان کو دے مارے ہیں۔