نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 2018ء میں ضمنی الیکشن کے ان 20 حلقوں میں سے 7 سیٹوں پر کسی نے مسلم لیگ ن کا ٹکٹ لینے کی ہمت نہیں کی تھی۔ اس لئے لیگی رہنمائوں کو اتنا ماتم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے ووٹ لئے ہیں اور دوسرے نمبر پر آئے ہیں۔
مزمل سہروردی نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ عمران خان اپنی 20 سے میں 15 سیٹیں جیت کر پاکستان کی سیاست کا رخ ہی بدل دیا ہے اور ن لیگ کے ڈبے خالی نکلے ہیں۔ انہیں 50،50 ہزار ووٹ ملے ہیں لیکن ن لیگ کیلئے خطرے کی گھنٹی ضرور بجی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کو دو تہائی اکثریت سے لانے والا منترا میری سمجھ میں نہیں آیا۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ پنجاب کی 157 میں سے 140 سیٹیں جیت جائیں گے۔ 2108 میں بھی ایسا نہیں ہوا جب بہت مشکل حالات تھے۔
رضا رومی کا کہنا تھا کہ امریکی سازش کا بیانیہ پاکستان کے لوگوں تک پہنچا ہوا ہے جسے عمران خان نے بڑے بھرپور طریقے سے پہنچایا ہے۔ ن لیگ اور پی ڈی ایم نے اس کو کائونٹر کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا۔
پروگرام میں ملک کے سیاسی منظر نامے پر بات کرتے ہوئے مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی نے اپنا ووٹ بینک بڑھایا ہے بلکہ بہت سے حلقوں میں وہ کافی بڑی لیڈ سے جیتے ہیں۔ جھنگ میں 30، 30 ہزار ووٹوں کی لیڈ سے جیتے ہیں۔ یہ بہت بڑی لیڈ ہے۔ لاہور میں شبیر احمد نے بڑی لیڈ سے فتح حاصل کی۔
مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ ان 20 نشستوں پر الیکٹیبز کا مقابلہ تھا۔ الیکٹیبز کیساتھ یہ نہیں تھا کہ صرف الیکٹیبز ایک جماعت کے پاس تھے۔ عمران خان نے اپنے کارکنوں کی بجائے الیکٹیبز کو ٹکٹیں دیں۔
ماجد نظامی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن کے رہنمائوں نے میرا خیال ہے کہ وزارتوں سے لیٹ استعفے دیے۔ اگر وہ 15 سے 20 دن پہلے استعفے دے دیتے اور اپنے حلقے میں بیٹھ جاتے تو وہ یہ سیٹیں بچانے میں کامیاب ہو سکتے تھے۔