دونوں خطوط مختلف نوعیت کے ہیں تاہم انہوں نے ں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو لکھے گئے خط میں میڈیا کو پارلیمنٹ تک مکمل رسائی دینے اور رکاوٹیں دور کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
شہباز شریف کا خط میں کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وباء کی تیسری لہر کے بعد اب پارلیمنٹ پوری طرح فعال ہو چکی ہے، مگر میڈیا کو گیٹ نمبر 1 سے ملحقہ جگہ استعمال کرنے کی تاحال اجازت نہیں۔ انہوں نے اپنے خط میں کہا ہے کہ حکومت نے میڈیا کو اپوزیشن کی کوریج سے روک رکھا ہے، اپوزیشن کو میڈیا پر مساوی کوریج کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔
اپوزیشن لیڈر کا اپنے خط میں اسپیکر قومی اسمبلی سے یہ مطالبہ بھی ہے کہ اپوزیشن کو میڈیا پر اپنی بات کہنے کے تمام مواقع فراہم کیئے جائیں۔
اپوزیشن لیڈر نے دوسرا خط چیف الیکشن کمشنر کے نام لکھا۔ شہباز شریف نے لکھے گئے خط میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ سے کہا ہے کہ 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی کی شکایات اور انتخابی اصلاحات پر اتفاقِ رائے کی ضرورت ہے۔ خط میں انہوں نے کہا ہے کہ آئندہ عام انتخابات کے آزادانہ، غیر جانبدارانہ، شفاف اور کسی مداخلت کے بغیر انعقاد کے لیے اصلاحات ضروری ہیں۔
شہباز شریف نے اپنے خط میں کہا ہے کہ موجودہ حکومت اپنا انتخابی اصلاحاتی ایجنڈا یک طرفہ اقدامات سے مسلط کر کے آئندہ انتخابات کو متنازع بنا رہی ہے۔ حکومت کی انتخابی اصلاحات آئین سے متصادم ہیں، حکومت نے متعلقہ فریقین سے کوئی مشاورت نہیں کی۔
مسلم لیگ نون کے صدر نے خط میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے حالیہ الیکشن بلز پر بذاتِ خود بھی سنگین تشویش کا اظہار کیا ہے، قومی اسمبلی میں ان الیکشن بلز کو بلڈوز کر کے منظور کرایا گیا، بامعنی انتخابی اصلاحات میں اداروں کو اپنی رائے دینے کے علاوہ ذمے داری لینا ہوگی تاکہ آزادنہ اور شفاف انتخابات یقینی ہوں۔
چیف الیکشن کمشنر کو لکھے گئے خط میں شہباز شریف نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات پر تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرے۔
اپنے خط میں انہوں نے اپیل کی ہے کہ میں آپ پر زور دیتا ہوں کہ تمام اپوزیشن جماعتوں کو مشاورت کے لیے بلائیں تاکہ اتفاقِ رائے پر مبنی پلان بن سکے اور اس متفقہ پلان کو پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جا سکتا ہے۔
اپوزیشن لیڈر کا اپنے خط میں یہ بھی کہنا ہے کہ چاہتے ہیں کہ مستقبل میں آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات منعقد ہو سکیں جو عوام کی حقیقی رائے کے مظہر ہوں۔