1968 میں اس وقت کے صدر جنرل ایوب خان سیاسی طور پر انتہائی کمزور ہو چکے تھے۔ یہ دور امریکہ اور سابق سؤویت یونین اور اُن کے اتحادیوں کے درمیان سرد جنگ کا دور تھا۔ ویت نام کی جنگ بھی اپنے عروج پر تھی۔ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کی جنگ کو ختم ہوئے بھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ دنیا کی دو سپر طاقتوں کے درمیان سرد جنگ اولمپک کھیلوں سے لے کر سی آئی اے اور کے جے بی کی پراکسی وار اپنے عروج پر تھی۔ اسلامی دنیا بھی دو دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی۔ کچھ روس کے ساتھ اور کچھ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا اپنا علیحدہ تشخص قائم کر کے تیسری طاقت بھی بننا چاہتی تھی۔ فلسطین اور کشمیر کا مسئلہ، عرب اسرائیل جنگیں، 1965 کی پاک بھارت جنگ اور پھر مشرقی پاکستان میں بھارت کی سازشوں کے اس ماحول میں اسلامی دنیا ہر اس واقعہ یا شخصیت کی جانب متوجہ ہو جاتی جس میں انہیں اسلامی دنیا میں اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کا کوئی امکان نظر آتا یا اپنی محرومیوں کے ازالے کی صورت نظر آتی ہو۔
ایسے کسی ایشو یا شخصیت کی جانب نہ صرف حاکم بلکہ علما کرام بھی راغب ہو جاتے۔ وہ محسوس کر رہے تھے کہ ان دو سپر پاورز کی جنگ میں وہ قربانی کا بکرا بن رہے ہیں۔ ایوب خان کو بھی اپنی گرتی ہوئی مقبولیت کو سہارا دینے کے لئے کسی معجزے کی ضرورت تھی۔ اسی ماحول میں انڈونیشیا کی ایک خاتون زہرہ فانا نے دعویٰ کیا کہ اس کے پیٹ میں پلنے والا بچہ امام مہدی (نعوذ باللہ) ہے اور امام مہدی کے ظہور کا وقت آ گیا ہے۔ اس قسم کے دعوے ماضی میں بھی بے شمار کیے جاتے رہے۔ نعوذ باللہ نبوت کے دعوے بھی ہوتے رہے۔ لیکن ان پر کبھی کسی نے کوئی خاص توجہ نہ دی تھی۔ زہرہ فانا کے ایک اور دعوے نے اسلامی دنیا کے علما کرام اور سربراہوں تک کو اپنی جانب متوجہ کر لیا اور وہ یہ تھا کہ اگر وہ اپنے پیٹ کو خانہ کعبہ کی جانب کرتی ہے تو اس پیٹ سے اذان کی آواز آتی ہے۔
اس میں حقیقت بھی تھی کیوںکہ کئی مذہبی دینی اہم شخصیات نے یہ آواز سنی اور اس کے درست ہونے کی تصدیق کر دی تھی۔ کئی سکالرز کے اس خاتون سے ڈیبیٹ کی سوالات اور جوابات ہوئے لیکن حیران کن طور پر وہ ان کو قائل کرنے میں کامیاب رہی کہ اس کے پیٹ میں امام مہدی پل رہے ہیں۔ ان مذہبی سکالرز نے اس کے اوپر آرٹیکل بھی لکھے اور لیکچر دیے کہ زہرہ فانا کے پیٹ میں پلنے والا بچہ ہی امام مہدی ہے جس پر پوری اسلامی دنیا میں اس خاتون کے چرچے ہونے لگے۔ اس نے کئی اسلامی ممالک کے دورے کیے اور جس ملک میں بھی یہ جاتی، ایک جم غفیر اکٹھا ہو جاتا۔ ہزاروں لوگوں نے اس کے پیچھے نماز بھی پڑھی جن میں کئی نامی گرامی مذہبی سکالر اور حکمران بھی شامل تھے۔
اسی دور میں اسے پاکستان مدعو کیا گیا۔ پاکستان میں اس خاتون کا ایسے استقبال کیا گیا کہ جیسے نعوذ باللہ واقعی امام مہدی کی آمد ہو رہی ہو۔ ملک کے نامی گرامی مذہبی سکالرز نے اس خاتون سے ملاقات کی۔ کئی سوال و جواب ہوئے۔ دو اصحاب نے تو اپنے کان سے اذان کی آواز بھی سنی۔ اذان سنانے کا طریقہ تھا کہ زہرہ فانا کعبہ کی طرف منہ کر کے بیٹھی ہوتی اور تصدیق کے لئے آیا ہوا شخص اپنا کان اُس کی بچہ دانی کے قریب لے جاتا جہاں سے اذان کی آواز آنا شروع ہو جاتی۔ یہ تجربہ کرنے والوں میں ایک سابق رویت ہلال کیمٹی کے رکن اور پاکستان کے ایک مشہور مولانا بھی شامل تھے۔ اس خاتون نے کئی شہروں میں اجتماعات کیے اور مبینہ طور پر کئی مذہبی شخصیات نے اس کے پیچھے نماز بھی پڑھی۔ یاد رہے کہا پاکستان کا مذہبی طبقہ شریعت کی رو سے اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ عورت بھی امامت کر سکتی ہے لیکن زہرہ فانا کہ سحر نے انہیں ایسا رام کیا کہ وہ اس کے پیچھے نماز پڑھنے لگے۔
جہاں معصوم عوام اور مذہبی سیاسی شخصیات اس کا دم پڑھنا شروع ہو گئیں وہاں روشن خیال طبقہ نے اس پر سوال بھی اٹھانے شروع کر دیے۔ یاد رہے یہ وہ دور تھا جب ذوالفقارعلی بھٹو، ڈاکٹر مبشر حسن جیسے لوگ محتاط انداز میں سوشلزم اور فیض احمد فیض کھلے عام کیمونسٹ نظریات کا پرچار کر رہے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو پاکستان میں سوشلزم یا کمیونزم لانے کے لئے کوشاں تھے۔ چناچہ ایسے ہی کچھ بائیں بازو کی ذہنیت رکھنے والے پاکستان میڈیکل اسوسی ایشن کے ممبران اور جناح اسپتال کراچی کے ڈاکٹروں نے زہرہ فانا کا میڈیکل ٹیسٹ لینے کا کہا اور اس مقصد کے لئے لیڈی ڈاکٹرز کی ایک ٹیم کا انتخاب کیا گیا لیکن زہرہ فانا نے کسی قسم کے ٹیسٹ یا میڈیکل ایگزامنیشن سے انکار کر دیا۔ اس کے دفاع میں کئی لوگ اٹھ کھڑے ہوئے لیکن کسی نہ کسی طرح اسے راضی کر ہی لیا گیا کہ وہ اپنا معائنہ کروائے۔ چنانچہ جیسے اس کے ٹیسٹ کیے گئے تو زچگی کے ٹیسٹ منفی آئے یعنی وہ امید سے نہیں تھی۔
اس انکشاف نے زہرہ فانا کے غبارے سے ہوا نکال دی لیکن ایک معاملہ سلجھنا باقی تھا کہ اذان کی آواز کیسے آتی ہے۔ اس کا پتہ اس وقت چلا جب ڈاکٹر صاحبان نے اس کی بچہ دانی سے ایک چھوٹا سا ٹیپ ریکاڈر نکال کر یہ معمہ بھی حل کر دیا۔ اس سے پہلے کہ یہ بھید عوامی سطح پر کھلتا، زہرہ فانا نے اپنا بوریا بستر گول کیا اور راتوں رات غائب ہو گئی۔ تاریخ میں پھر اس کا ذکر نہیں ملتا۔ ممکن ہے کہ زہرہ فانا راز افشا ہونے پر ڈر گئی ہو کہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچائے اور وہ خود روپوش ہو گئی ہو یا اس کے پیچھے کوئی ایسی طاقت جس نے اسے اسلامی دنیا کے لئے اس کام پر لگایا تھا نے اسے ٹھکانے لگا دیا ہو۔ تاہم، اس کے ساتھ کیا ہوا کوئی نہیں جانتا۔ لیکن وہ لوگ تو یہیں تھے جو اس کی بات مان کر اس کی امامت میں نماز بھی پڑھتے رہے۔ اس کے پیٹ کے قریب اپنے کان لے جا کر اذان سنتے رہے۔
وہ کیا کسی شاعر نہ کہا ہے کہ
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
زہرہ فانا یہ ڈرامہ کرکے غائب ہو گئی لیکن ان دینی سکالرز، حکمرانوں اور عوام کے لئے خفگی اور شرمندگی چھوڑ گئی جو کہ اسے سچ ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکہ اور روس چاند پر پہنچ چکے تھے۔ 20 جولائی 1969 کو امریکہ کا خلاباز نیل آرمسٹرانگ چاند پر اپنا قدم رکھ چکا تھا۔ میڈیکل سائنس اتنی ترقی کر چکی تھی کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی جنس تک بتا دی جاتی تھی۔ گلاسگو، سکاٹ لینڈ کے ایک اسپتال میں 1950 سے شروع ہونے والی الٹرا ساؤنڈ مشین 1970 تک برطانیہ اور دوسرے ممالک میں عام استعمال کی جاتی تھی۔ ٹیپ ریکارڈر 1930 یعنی دوسری جنگ عظیم سے پہلے جرمنی میں ایجاد ہو چکا تھا اور اسے بڑے پیمانے پر دوسری عالم گیر جنگ کے دوران جاسوسی کے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا تھا۔ پھر کیوں ایک عام سی عورت اس طرح پوری اسلامی دنیا کو فریب دے گئی اور کیسے دینی سکالر تھے جو اس کے ہاتھوں بےوقوف بن گئے؟ کیا اسلامی دنیا کی ان اعلیٰ شخصیات کو ان سائنسی ایجادات کا پتہ نہیں تھا؟ پھر کیسے انہوں نے عالم اسلام کو شرمندہ ہونے کا موقع دیا؟ یہ بھی ممکن ہے کہ ان دینی فگرز نے جان بوجھ کر ایسے طبعی معائنہ پر خاموشی اختیار کی ہو کہ ہو سکتا ہے کہ امام مہدی (نعوذباللہ) کے نائب وہی ہوں اور نائب کا مطلب نبوت میں اور امامت میں کیا ہوتا ہے، قارئین کرام اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔
بہرکیف اس کا جو بھی نتیجہ نکالا جائے، ایک کریڈٹ تو پاکستان میڈیکل اسوسی ایشن کو جاتا ہے کہ وہ اس فریبی عورت کی اصلیت دنیا کے سامنے لے آئے ورنہ جذباتی مسلمان تو تلورایں تیز کیے بیٹھے تھے بلکہ کچھ مذہبی گروپوں نے تو اس بنا پر اپنے ملکوں کے غیر مسلموں کو دھمکانا شروع کر دیا تھا۔ کئی جگہ ان پرحملہ تک بھی کیے گئے اور املاک کو نقصان بھی پہنچایا گیا۔ ایسی ہی ایک سیاسی مذہبی جماعت نے پاکستان میں بھی ایسی حرکتیں کیں۔ اب اگر آپ ان سے پوچھو تو وہ کہیں گے کون زہرہ فانا؟ ہم نے تو یہ نام پہلی دفعہ سنا ہے۔ اس تحریر کے آخر میں قرآن وحدیث کی رو سے کسی بات کے سچ یا جھوٹ ہونے کا معیار آیات و احادیث کی روشنی میں دیا ہے۔ اس پر روشنی ڈالنا چاہوں گا۔
فرمان باری ہے
اے ایمان والو! جب اللہ کی راہ میں نکلو تو خوب تحقیق کر لیا کرو، اور جو شخص تم پر سلام کہے تو اسے (کافر سمجھ کر) یہ نہ کہو کہ تو مؤمن نہیں۔
سورة الحجرات میں ارشاد ہے
اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق شخص خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ کرو کہ تم جہالت میں کسی قوم پر حملہ کر بیٹھو پھر تم بعد میں اپنے کیے پر نادم ہو جاؤ۔
ایک حدیث میں ارشاد نبویﷺ ہے ”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے پھیلا دے“ صحیح مسلم
قرآن پاک کی ان آیات او حدیث مبارک سے سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی بھی بات کو تصدیق کے بغیر آگے پھیلانا فساد، ندامت اور پچھتاوے کی وجہ بن سکتا ہے۔ پرسننے والے کے ذہن میں یہ بات ضرور آئی ہو گی کہ جب اس دور کی مذہبی شخصیات نے اس کی تصدیق کر دی تھی تو پھر عام مسلمان اس پر کیسے اعتبار نہ کرتا؟ بالکل ایسا ہی ہے۔ عام آدمی کو اس غلطی کا لزام نہیں دیا جا سکتا۔ ان عالموں اور حکمرانوں کو مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہیے جو میڈیکل سائنس کی اتنی ترقی کے باوجود بھی اس سے مدد لینے میں ہچکچاتے رہے۔ اس پر شاید یہ کہا جائے کہ کیوںکہ سائنس غیر مسلموں کا علم تھا یا اس وقت ایسا ہی سمجھا جاتا ہوگا۔ اس لئے انہوں نے میڈیکل سائنس کی مدد نہیں لی ہوگی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ سائنس کا علم کسی ایک قوم کی میراث نہیں۔ یہ وہی سائنس ہے جس کے قائل اور بڑے سائنسدان فارابی، الکندی، جابر بن حیان جیسے بڑے مسلمان تھے۔ ان کے ہی علم کو آگے بڑھاتے ہوئے آج اہل مغرب نے سائنس میں اتنی ترقی کی ہے۔ لہٰذا سائنس کا علم غیر اسلامی نہیں اور نہ ہی کوئی علم دنیا میں ایسا ہے جو کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ نے خود اپنی مخلوق کے لئے پیدا نہ کیا ہوا۔