شہباز شریف اور جہانگیر ترین کی بیٹیوں کے وارنٹ نکل سکتے ہیں تو بشریٰ بی بی کا کیوں نہیں؟

06:32 PM, 18 Jun, 2022

نیا دور
سینئر تجزیہ کار مزمل سہروردی نے کہا ہے کہ اگر جہانگیر ترین کی بیٹیوں کے وارنٹ گرفتاری نکل سکتے ہیں، وزیراعظم شہباز شریف کی صاحبزادی کو عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے تو سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کو کیوں نہیں کیا جا سکتا؟

انہوں نے کہا یہ معزز خواتین بھی تو غیر سیاسی ہیں۔ اگر بشریٰ بی بی گھریلو خاتون تھیں تو ان کو فرح گوگی کیساتھ کمپنیوں میں ڈائریکٹر کیوں بنایا گیا؟ مزمل سہروردی نے نیا دور ٹی وی کے ''پروگرام خبر سے آگے'' میں ملکی سیاست، فرح گوگی پر مبینہ کرپشن الزامات اور فیٹف کے معاملے پر بات کی۔

مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ فرح گوگی صرف چند سال پہلے تک لاہور کے ایک شو روم پر بطور سیلز گرل کام کرتی تھیں۔ اس کے بعد وہ فوٹریس میں ایک بوتیک پر ملازم ہو گئیں۔ وہیں پر ان کی اپنے شوہر احسن جمیل گجر سے ملاقات ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر 2018ء میں فرح گوگی کے اثاثے 98 کروڑ تھے اور آج بھی اتنے ہی ہیں تو کسی کو بھی ان پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے لیکن اگر ان کے اثاثے اس وقت 5 کروڑ تھے جو آج بڑھتے بڑھتے اتنے زیادہ ہو گئے ہیں تو اس پر سوال تو اٹھائے جانے چاہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر جہانگیر ترین کی بیٹیوں کے وارنٹ گرفتاری نکل سکتے ہیں اور وزیراعظم کی صاحبزادی کو عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے تو سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کو کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ یہ معزز خواتین بھی تو غیر سیاسی تھیں۔ اگر بشریٰ بی بی گھریلو خاتون تھیں تو ان کو فرح گوگی کیساتھ کمپنیوں میں ڈائریکٹر کیوں بنایا گیا؟

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی گرے لسٹ کے معاملے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم ایف اے ٹی ایف میں اس لیے پھنسے رہے کیونکہ عمران خان کی خارجہ پالیسی کمزور تھی۔ ہماری خارجہ پالیسی جیسے ہی بہتر ہوئی، ہم اس سے باہر نکل آئے۔

مزمل سہروردی نے کہا کہ پچھلی حکومت میں ہماری بات طالبان سے شروع ہو کر طالبان پر ختم ہو جاتی تھی۔ ہماری خارجہ پالیسی کا سارا فوکس طالبان پر تھا۔ ہم ان کے لئے چندے مانگ رہے تھے۔ فیٹف تو ہماری خارجہ پالیسی میں تھا ہی نہیں۔ حافظ سعید کو سزا دینے کے بعد فیٹف میں پھنسے رہنے کی وجہ میرے خیال میں کمزور خارجہ پالیسی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے القادر یونیورسٹی سکینڈل کا پاکستانی میڈیا میں چرچا نہیں ہو رہا کیونکہ اس میں ملک ریاض ملوث ہے۔ یہ رعایت ملک ریاض کے لیے ہے، عمران خان کے لیے نہیں۔ میڈیا ملک ریاض کی کرپشن چلانے کیلئے تیار نہیں ہے۔
مزیدخبریں