امریکی اخبار نے سعودی دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مہم کے تحت سعودی عوام کی نگرانی، انہیں اغوا کرنا اور حراست میں رکھنا اور ان پر تشدد کرنا شامل ہے۔
امریکی حکام کے مطابق، سعودی عرب نے اس منصوبے کو ’’سعودی ریپڈ انٹروینشن گروپ‘‘ کا نام دیا ہے۔
https://youtu.be/fqLzD073OoE
نیویارک ٹائمز کی خبر کے مطابق، اس ٹیم کے ارکان نے متعدد اہم خفیہ مشن انجام دیے ہیں جن میں گزشتہ برس اکتوبر میں استنبول میں سعودی سفارت خانے میں معروف صحافی جمال خاشقجی کا قتل بھی شامل ہے جو مبینہ طور پر مملکت کی جانب سے اپنے مخالفین کی آواز دبانے کی مہم کا حصہ تھا۔
مقتول سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر سعودی حکام پر شدید تنقید کی گئی تھی اور امریکی سینیٹرز نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا تھا، تاہم انہوں نے اس تجویز پر عمل نہیں کیا۔
امریکی خفیہ اداروں کے سربراہوں نے بھی سینیٹرز کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا، وہ پریقین ہیں کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث ہیں لیکن سعودی عرب نے کبھی ان الزامات کو قبول نہیں کیا۔
یاد رہے کہ سعودی عرب نے ابتدا میں جمال خاشقجی کے بارے میں مکمل طور پر لاعلمی کا اظہار کیا تھا تاہم عالمی سطح پر دبائو میں اضافے کے باعث سعودی عرب نے کہا تھا، جمال خاشقجی استنبول میں سعودی سفارت خانے میں ہونے والی ایک لڑائی کے دوران مارے گئے تھے۔
نیویارک ٹائمز کی مذکورہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریپڈ انٹروینشن گروپ نے گزشتہ برس گرفتار کی گئی خواتین کو ناصرف زیرحراست رکھا ہوا ہے بلکہ انہیں ذہنی تشدد کا نشانہ بنانے میں بھی مصروف ہے، گزشتہ برس جون کے مہینے میں یہ ٹیم اس قدر مصروف تھی کہ اس کے سربراہ نے ولی عہد کے مشیر سے عیدالفطر پر بونس دینے کا مطالبہ تک کر ڈالا تھا۔
سعودی عرب نے ایسے کسی گروپ کی موجودگی کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔
دوسری جانب امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ گروپ مکمل طور پر بااختیار ہے جسے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے تمام تر اختیارات دے رکھے ہیں اور شاہی عدالت کے رکن سعود القحطانی اس گروپ کے سربراہ ہیں۔