لیکشن کمیشن میں چیف الیکشن کمشنر سکندرسلطان راجہ کی سربراہی میں 4 رکنی بینچ نے فیصل واوڈا کی نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں فیصل واوڈا اور ان کے وکیل کمیشن میں پیش ہوئے۔
ممبر الیکشن کمیشن پنجاب الطاف ابراہیم نے فیصل واوڈا کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ بار بار ہمیں ڈکٹیشن دے رہے ہیں کہ اس کیس کو خارج کریں، آپ 'مسٹ بی' کا لفظ کا استعمال کررہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے ممبر کے پی ارشاد قیصر نے کہا کہ ہم اس کیس کو سیشن جج کو بھی بھیج سکتے ہیں، اس پر واوڈا کے وکیل کا کہنا تھا کہ آپ ایسا نہیں کرسکتے، اس کے جواب میں ممبر کے پی نے کہا کہ ہم کرسکتے ہیں اور بہت سے کیسز ایسے موجود ہیں، ہم کسی کی شکلوں یا سیاسی جماعت کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرتے کتابوں کو دیکھتے ہیں۔
دورانِ سماعت فیصل واوڈا نے روسٹرم پر آکر بیان دیا کہ اگر میری غلطی ہے تو پھانسی لگا دیں لیکن پہلے مجھے سنیں، میرے خلاف سیاست کی گئی اور بدنام کرنے کی کوشش کی گئی، میرا پورا کیرئیر ہے، فیملی ہے، میری ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ نے میرے حلف نامے سے متعلق الیکشن کمیشن کو تحقیقات کا کہا ہے، الیکشن کمیشن میرے حلف نامے پرتحقیقات کرالے کہ میں نے جھوٹ بولایا نہیں۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ میرا میڈیا ٹرائل کیا جارہا ہے، جیسے میں نے کوئی چوری کی ہے، سعدیہ عباسی یا دیگرکو سپریم کورٹ نے اس لیے نااہل کیا کیونکہ وہ اپنی نشست پرموجود تھیں۔
اس موقع پر فیصل واوڈا کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ این اے 249 سے فیصل واوڈا استعفیٰ دے چکے ہیں اور درخواستیں غیر مؤثر ہوچکی ہیں جب کہ ہم نے الیکشن کمیشن کے تینوں سوالوں کے جواب دے دیے ہیں، اب فیصل واوڈا سینیٹر منتخب ہوچکے ہیں۔
چیف الیکشن کمشنر نے درخواست گزار کو درخواستوں کے غیر مؤثر ہونے پر دلائل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ فیصل واوڈا کے قومی اسمبلی نشست پر استعفے کے بعد صورتحال تبدیل ہوگئی ہے۔
ممبر پنجاب کا کہنا تھا کہ آئندہ سماعت پر کسی فیصلے تک پہنچیں گے۔
الیکشن کمیشن نے درخواست گزاروں سے فیصل واوڈا کے جواب پر تحریری جواب مانگ لیا اور مزید سماعت 6 اپریل تک ملتوی کردی۔