لاہور کے ایڈیشنل سیشن جج حامد حسین نے قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کےخلاف خاتون کی جانب سے اندراج مقدمہ کی درخواست پر سماعت کی۔
درخواست میں حامزہ مختار نے الزام لگایا تھا کہ بابر اعظم کی ایما پر انہیں بلیک میل کیا جارہا اور دھکمیاں بھی دی جا رہی ہیں۔
سماعت کے دوران وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی سائبر کرائم ونگ نے اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جس میں بتایا گیا کہ حامزہ مختار نے دھمکانے بلیک میل کرنے نازیبا مسیجز بھیجنے کے الزام میں درخواست دی۔
ایف آئی اے نے رپورٹ میں بتایا کہ بابر اعظم بھی انکوائری میں شامل نہیں ہوئے اور ان کی جگہ ان کا بھائی فیصل اعظم پیش ہوا اور انہوں نے مہلت مانگی لیکن بابر اعظم مہلت کی معیاد ختم ہونے کے باوجود پیش نہیں ہوئے۔
عدالت نے ایف آئی اے کو مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا اور درخواست بھی نمٹا دی۔
یاد رہے کہ 30 نومبر 2020 کو حامزہ مختار نے بابر اعظم کے خلاف سنگین نوعیت کے الزامات عائد کرتے ہوئے اندراج مقدمہ کے لیے سیشن کورٹ میں درخواست دائر کردی تھی،
حامزہ مختار نے سیشن کورٹ میں اندراج مقدمہ اور ہراساں کرنے سے روکنے کی درخواست دائر کی تھی اور کہا تھا کہ سی سی پی او لاہور کو اندارج مقدمہ کی درخواست دی لیکن عمل درآمد نہیں ہوا۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ بابر اعظم کے اہل خانہ انہیں ہراساں کر رہے ہیں لہٰذا عدالت انہیں ہراساں کرنے سے روکنے کا حکم دے۔
بعد ازاں لاہور کی سیشن کورٹ نے نصیرآباد پولیس کو بابر اعظم کے خلاف فوجداری ضابطہ اخلاق کی دفعہ 154 کے تحت خاتون کا بیان قلم بند اور قانون کے مطابق کارروائی کا حکم دیا تھا۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد نعیم نے حمزہ مختار کے ذریعے دائر درخواست کو نمٹاتے ہوئے مشاہدہ کیا تھا کہ ملزم پر اسقاط حمل اور شادی کی جھوٹی یقین دہانی پر دھوکا دہی سے جسمانی تعلق جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں، درخواست گزار کی درخواست کو بغور پڑھنے سے بادی النظر میں قابل سزا جرم کا کمیشن بنایا گیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جج نے نصیر آباد اسٹیشن ہاؤس آفیسر کو ہدایت کی تھی کہ وہ خاتون کا بیان فوجداری ضابطہ اخلاق کی دفعہ 154 کے تحت درج کریں اور قانون کے مطابق سختی سے آگے بڑھیں، جج نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ پولیس رپورٹ درخواست کے حقائق سے یکسر مختلف ہے۔
خاتون نے درخواست میں بابر اعظم پر الزامات عائد کیے تھے کہ انہوں نے جنسی تعلقات برقرار رکھتے ہوئے شادی کے جھوٹے وعدے کیے، انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ 2015 میں وہ بابر اعظم کے بچے کے ساتھ حاملہ ہوگئی تھیں لیکن انہیں اسقاط حمل کروانا پڑا تھا۔
کرکٹر کے وکیل نے کہا تھا کہ درخواست گزار نے پہلے بھی یہی الزامات عائد کرنے والی ایک درخواست واپس لے لی تھی اور متعلقہ تھانے میں بیان حلفی جمع کرایا تھا، انہوں نے اسقاط حمل کے الزام کو بھی متنازع قرار دیا۔
15 جنوری کو لاہور ہائی کورٹ نے قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا سیشن کورٹ کا حکم معطل کرتے ہوئے متعلقہ ایس ایچ او کے ساتھ ساتھ درخواست گزار حامزہ مختار سے تحریری جواب طلب کر لیا تھا۔
حارث عظمت ایڈووکیٹ نے نشاندہی کی تھی کہ سیشن عدالت نے حقائق کے برعکس بابر اعظم کے خلاف اندراج مقدمہ کا حکم دیا ہے اور حامزہ مختار نے بابر اعظم کو بلیک میل کرنے کے لیے بے بیناد درخواست دائر کی۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس اسجد جاوید گھرال نے 3 مارچ کو قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کی جانب سے ان پر مقدمہ دائر کرنے کے حکم کے خلاف دی گئی درخواست پر سماعت کے دوران مقدمے کو ملک کی بدنامی کا باعث قرار دیتے ہوئے سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی تھی۔
عدالت نے درخواست گزار سے کہا تھا کہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) مکمل ہونے دیں پھر مقدمہ سن لیں گے۔