ملک کے معروف صحافی حامد میر نے بھی اس سب سیاسی مد وجزر کے اندر سے خبریں تلاشنے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ (حد تو یہ ہے)زرداری صاحب نے اپنی تقریر میں ڈومیسائل کا طعنہ بھی مار دیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ اگر ہمارے استعفے چاہئیں تو نواز شریف کو پاکستان آنا ہو گا۔ زرداری صاحب نے وہی بات کر دی جو عمران خان بھی بار بار کرتے ہیں۔
اس موقع پر پی ڈی ایم کی دس میں سے نو جماعتیں نواز شریف کے ساتھ کھڑی تھیں۔ اصولی طور پر پیپلز پارٹی کو اکثریت کا فیصلہ ماننا چاہئے تھا یا پی ڈی ایم کو چھوڑ دینا چاہئے تھا لیکن پیپلز پارٹی نے صلاح مشورے کے لئے کچھ وقت مانگ لیا۔
اب صورتحال یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے اراکینِ پارلیمنٹ کی اکثریت زرداری صاحب کی تقریر سے خوش نہیں لیکن یہ بیچارے بول نہیں سکتے۔ مسلم لیگ (ن) کے کئی اراکین پارلیمنٹ نے مجھے ذاتی طور پر کہا کہ اسمبلیوں سے استعفوں پر اصرار کا بہت نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ عمران خان پارلیمنٹ کو ربڑ اسٹمپ بنا دے گا لیکن یہ بیچارے بھی بول نہیں سکتے۔
یہی حال تحریک انصاف والوں کا ہے۔ حکمران جماعت کے اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت اپنے وزیراعظم کی پالیسیوں سے سخت ناخوش ہے لیکن یہ بھی بولتے نہیں، صرف موقع ملنے پر مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کے وعدے پر یوسف رضا گیلانی کو ووٹ ڈال دیتے ہیں۔
پی ڈی ایم اجلاس میں زرداری صاحب کی ’’تاریخی‘‘ تقریر نے حکمران جماعت کے اُن ایم این اے حضرات کو سخت پریشان کر رکھا ہے جنہوں نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کے وعدے پر گیلانی کو ووٹ دیئے۔ آئندہ یہ صاحبان اپنے ضمیر کی آواز پر عمران خان کو دھوکہ دینے سے پہلے دس مرتبہ سوچیں گے۔
زرداری صاحب نے اپنی تقریر سے کم از کم قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا راستہ دشوار کر دیا ہے کیونکہ آئندہ پیپلز پارٹی پر اعتبار کرنا بہت مشکل ہو گا۔ اس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ عمران خان کے لئے سب اچھا ہے۔ خان صاحب نے الیکشن کمیشن کے ساتھ جو پنگا لیا ہے وہ انہیں مہنگا پڑے گا