اب تازہ ترین واقعے میں گوجرانوالہ کے علاقے نوشہرہ ورکاں میں احمدی کمیونٹی کی عبادتگاہ کو مذۃبی منافرت کے تحت توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اور پھر اسکا اعلان تحریک لبیک پاکستان کے حلقہ PP142 شیخوپورہ کے پریس انفارمیشن سیکریٹری منیب رضوی کی جانب سے فخریہ طور پر ٹویٹر پر ویڈیو پوسٹ کر کے کیا گیا ہے۔
ٹویٹ میں لکھا گیا ہے کہ آج الحمدللّٰہ گرمولہ ورکاں تحصیل نوشہرہ ورکاں میں مرزائیوں کا کفر خانہ گرا دیا گیا زندگی میں بڑے بڑے جلسے جلوسوں ریلیوں پر گیا لیکن جو مزہ آج ختمِ نبوت کے منکرین کے سامنے لبیک یا رسول اللّٰہﷺ اور تاجدارِ ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگانے کا آیا اور کہیں نہیں آیا۔
https://twitter.com/Muneebrizvi2/status/1372164961275904003
احمدی کمیونٹی کی جانب روا رکھے جانے والا یہ مذہبی منافرت پر مبنی تشدد نیا نہیں ہے۔ اس سے قبل گزشتہ سال کو ہی بطور مثال لے لیا جائے تو
جولائی میں شیخوپورہ میں احمدیوں کے قبرستان میں قبروں کی بے حرمتی کا واقعہ سامنے آیا تھا۔ جس کے بارے میں الزام تھا کہ یہ مقامی مولویوں اور مذہبی رہنماؤں کی ایما پر کیا گیا اور وہ اس میں براہ راست بھی شریک ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی الزام ہے کہ وہاں کے حکومتی و انتظامی افراد بھی اس میں ملوث ہیں۔
تفصیلات کے مطابق یہ واقعہ شیخوپورہ کے نواح میں پیش آیا جہاں موجود احمدیوں کے لئے مخصوص قبرستان میں قبروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ جماعت احمدیہ کے آفیشل ٹویٹر اکاونٹ سے ایک سے زائد ٹویٹس میں شیئر کی گئیں تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ قبروں کے کتبے توڑے گئے۔
عید الاضحیٰ کے موقع پر 27 جولائی 2020 کو پنجاب حکومت کے محکمہ داخلہ کو لکھے گئے ایک خط میں لاہور ہائی کورٹ بار اسوسی ایشن کی جانب سے گذارش کی گئی تھی کہ آئین کے آرٹیکل 260(3)(b) کے مطابق احمدی غیر مسلم ہیں جب کہ قربانی سنتِ ابراہیمیؑ اور سنتِ محمدیؐ ہے جو کہ خاتم النبیینؐ ہیں لہٰذا قربانی کی رسم انہی شعائرِ اسلامی میں آتی ہے جن کو اپنانے کا آئین کے تحت احمدیوں کو حق نہیں ہے کیونکہ مسلمان گذشتہ 1400 سال سے یہ تہوار مناتے آ رہے ہیں۔ کہا گیا کہ احمدیوں کو آئین کے تحت پابند کیا گیا ہے کہ وہ کوئی بھی شعائرِ اسلامی اپنا نہیں سکتے۔
12 اگست کی رات سوا 9 بجے پشاور میں ایک احمدی معراج احمد کو احمدی ہونے کی بنا پر قتل کر دیا گیا۔
احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے معراج احمد کی عمر61 سال تھی اور وہ اپنا میڈیکل سٹور بند کر کے گھر جا رہے تھے کہ نامعلوم افراد نے انہیں فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ جبکہ پشاور کی عدالت میں طاہر نامی احمدی شخص کو گولی مار دی گئی تھی جس پر الزام تھا کہ وہ توہین کا مرتکب ہوا ہے اور وہ اس الزام سے انکاری تھا اور کیس کی سماعت کے لیئے عدالت میں موجود تھا۔
اسی سال برطانیہ کی پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی صورتحال پر ایک رپورٹ آئی جس میں لکھا گیا تھا کہ پاکستان میں ہر احمدی کو اپنی پیدائش سے موت تک ظلم و جبرکا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کو ووٹ کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے اور یہ سب کچھ ریاست کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔