تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کی رہائشی درخواست گزار اسما ملک نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور مؤقف اپنایا کہ سیاسی رہنماؤں کی جانب سے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ڈی چوک میں جلسے کے اعلان کی وجہ سے دارالحکومت میں رہنے والے لوگوں کی سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہیں۔
ان کے وکیل نے استدلال کیا کہ حکمران جماعت کے رہنماؤں سمیت مختلف سیاسی رہنماؤں نے ایسے بیانات دیے ہیں جو تشدد کو ہوا دے سکتے ہیں جس سے شہریوں اور ان کی املاک کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
درخواست گزار نے درخواست کے ساتھ حکمران اور اپوزیشن دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کی جانب سے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے پیغامات کی کاپیاں بھی منسلک کیں کہ ان کا مقصد لاقانونیت پیدا کرنا ہے اور اس طرح شہریوں اور ان کے بنیادی حقوق کو نقصان پہنچنے کا سنگین خطرہ موجود ہے۔
حکمران جماعت پی ٹی آئی نے اپنے قائد عمران خان کی حمایت اور پارٹی کے اراکین اسمبلی کو بظاہر ووٹ ڈالنے سے روکنے کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر 10لاکھ افراد پر مشتمل بڑا اجتماع منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اپوزیشن اتحاد نے بھی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل ڈی چوک کو اپنے حامیوں سے بھرنے کا انتباہ دیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس کو غیر معمولی صورتحال قرار دیا کیونکہ حکمران جماعت کے ساتھ ساتھ اپوزیشن میں موجود افراد نے اپنی اسٹریٹ پاور شو کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ اس بات سے قطع نظر کہ درخواست گزار حکمران سیاسی جماعت سے ہے یا اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے والوں کی نمائندگی کرتا ہے، یہ انتظامی حکام کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ ان بنیادی حقوق کے درمیان توازن قائم کریں جن کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے نوٹ کیا کہ امن عامہ کو برقرار رکھنا اور آئین کے آرٹیکل 16 کے تحت ریگولیشن کے تناظر میں معقول پابندیاں عائد کرنا ایگزیکٹو اتھارٹیز یعنی وزیر داخلہ، سیکریٹری داخلہ اور اسلام آباد کے چیف کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل آف پولیس کے خصوصی دائرہ کار میں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں مذکورہ بالا عہدیداروں کو اس بات کو یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے موصول ہونے والی درخواستوں پر غور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے آئینی فرائض کا خیال رکھیں۔