مظاہرین کے بقول "حکومت بلوچستان اور اداروں نے وعدہ خلافی کی ہے۔ سمندر میں غیر مقامی ٹرالز کی روک تھام، بارڈر کاروبار، لاپتہ افراد کی بازیابی اور غیر ضروری چیک پوسٹوں کے خاتمے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا ہے جس سے مجبوراً دوبارہ دھرنہ دیا جارہا ہے" ۔
اس تحریک کی قیادت مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کر رہے ہیں۔ مولانا نیا دور کے لیے اپنے خصوصی انٹریو میں کہتے ہیں کہ "حکومت اور ادارے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ان کے لیے عوام اور عام شہریوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وہ ہمیں کیڑا مکوڑا سمجھتے ہیں کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ یہ ملک صرف سرمایہ دار، اشرافیہ اور جرنیلوں کا ہے" مولانا سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس احتجاج کرنے کا آئینی اور جمہوری حق ہے۔ اسی لیے وہ پرامن احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے کہ خوف اور ڈر کا ماحول پیدا کیا گیا تھا۔ سیاسی و سماجی اور تعلیم یافتہ طبقے کو لاپتہ کرنا اور ان کی مسخ شدہ لاشیں گرانے کے سلسلے سے ایک خاموشی کا ماحول تھا جو اب ایک حد تک کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ اسے "حق دو تحریک" کی کامیابی سمجھتے ہیں کہ ان کے احتجاجوں سے خوف کا ماحول ختم ہورہا ہے اور نوجوان ایک بار پھر سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ مولانا سے پوچھا گیا کہ کیا ان احتجاجی دھرنوں کا لاحاصل ایک اور دھرنے کے سوا کچھ اور نکل رہا ہے جس سے کوئی فائدہ ہو؟
مولانا کہتے ہیں کہ "ایک تو ان احتجاجوں سے خوف کا ماحول ختم ہوتا جارہا ہے اور اس کے علاوہ اب اداروں کے ذمہ دار خود کو آقا تصور کرنے کی بجائے ملازم سمجھنے لگے ہیں" مولانا ہدایت الرحمٰن مزید کہتے ہیں کہ پچھلے 74 سالوں سے مسائل حل نہیں ہوئے ہیں تو اب چند دھرنوں سے بھی یکدم تو حل نہیں ہونگے لیکن وہ امید سے ہیں کہ جمہوری اور آئینی طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے وہ پرامن احتجاجوں سے حکومتی اداروں کو مجبور کریں گے کہ وہ مسائل کو حل کریں۔
کچھ حلقے یہ بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ بلوچستان کے اس گٹھن زدہ ماحول میں جہاں سوال اٹھانے والے اٹھائے جاتے ہیں تو مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ کو کن قوتوں کا آشرباد حاصل ہے جو کھل کر بولتے ہیں؟ مولانا کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ عوام کی طاقت ہے۔ وہ پارلیمانی قوم پرست جماعتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ جماعتیں سمجھتی ہیں کہ "جب تک لاشیں نہ گریں تو کامیابی نہیں ملے گی" وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ کوئی بول رہا ہے تو ضرور اس کے پیچھے کوئی نادیدہ قوت ہے اور جب تک کسی کو مارا نہیں جائے تو وہ کامیاب رہنما نہیں ہے۔ وہ اس تاثر کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور سب کی زندگیوں کے لیے دعائیں کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔
مولانا سے پوچھا گیا کہ کیا وہ خود کو ایک قوم پرست رہنما سمجھتے ہیں یا مذہبی؟ کیونکہ پارلیمانی قوم پرستوں پر وہ ہمیشہ تنقید کرتے ہیں اور بلوچ معاشرے میں مذہبی جماعتوں کی طرف عوامی رجحان بالکل بھی نہ ہونے کے برابر ہے تو مولانا کہتے ہیں کہ وہ "ایک قوم دوست اور خدا پرست رہنما ہیں"۔