راولپنڈی اور اسلام آباد میں بیٹھے مقتدر لوگوں کو پانچ خطرناک علامات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے کیا اسٹیبلشمنٹ کے اندر موجود مختلف مفاد پرست گروہوں کے مابین مقصد سے متعلق شفافیت اور اتحاد ہے کہ وہ ایک مقبول لیڈر سے کس انداز میں نمٹنا چاہتے ہیں جو دن بدن حقیقی سیاسی نقطہ نظر کے لحاظ سے ناقابل قبول ہوتا جا رہا ہے؟ اگر تو مقصد یہ ہے کہ عمران خان کے ساتھ سابق وزیر اعظموں جیسا برا سلوک کیا جائے تو اس کے لئے جو طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں وہ بے اثر ہیں۔
دوسرا یہ کہ اعلیٰ اور ماتحت عدالتوں کی صفوں میں موجود ظاہری کنفیوژن اور تقسیم کے باعث قانونی اور سیاسی تنازعات کے منصفانہ اور غیر جانبدار ثالث کے طور پر عدلیہ کی تیزی سے خراب ہوتی ساکھ کی عکاسی ہوتی ہے۔ جیسا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اپنی گرفتاری سے بچ رہے تھے، ان کی قانونی ٹیمیں مختلف دائرہ اختیار میں مختلف عدالتوں سے رجوع کر رہی تھیں، جس کے نتیجے میں عدالتوں سے متعدد ایسے احکامات حاصل کیے گئے جو ایک دوسرے سے متصادم تھے۔
تیسرا یہ کہ لاہور کے زمان پارک میں گرفتاری سے بچنے کا عظیم الشان شو جاری ہے، پاکستان کے دور دراز کے علاقوں میں یہ سوچ پیدا ہو رہی ہے کہ کیا وہ عمران خان کی طرح ہی ملک کے شہری ہیں یا نہیں۔ سوشل میڈیا پوسٹس اس طرح کی شکایات سے بھری ہوئی تھیں: اگر عمران خان کا تعلق چھوٹے صوبے سے ہوتا تو کیا ہوتا؟ کیا ان کے ساتھ اسی طرح کا ترجیحی سلوک کیا جاتا؟ اس بات پر غور کیا جائے کہ ایک منتخب رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو صرف اس وقت کے آرمی چیف جنرل باجوہ کا نام لینے اور ان کے ادارے کی ناقص پالیسیوں پر تنقید کرنے کے جرم میں دو سال سے زائد عرصے تک کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا۔
چوتھا مرکزی دھارے کے نیوز میڈیا کا کردار جس نے زمان پارک کے تصادم کو ایک ویڈیو گیم کے طور پر پیش کیا اور عوام کو یہ بتائے بغیر سنسنی خیز رپورٹنگ جاری رکھی کہ عدالتی وارنٹ خواہ کتنا ہی متنازعہ کیوں نہ ہو، اس کی تعمیل لازمی ہوتی ہے۔
آخری نکتہ یہ ہے کہ نظریات کے بغیر مزاحمت کے عمل کے طور پر اور مذہبی یا سیکولر فرقوں کی خدمت کے طور پر پولیس اہلکاروں کو مارنا پیٹنا 2017 میں ڈیپ سٹیٹ کی جانب سے کروائے جانے والے فیض آباد دھرنے کے بعد سے ایک معمول کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ فیض آباد دھرنے کے بعد سول اتھارٹی کو ہجوم کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہونا پڑا، جن ججوں نے اس دھرنے کا نوٹس لیا انہیں دھمکایا گیا۔ عمران خان اور ان کے حامی پچھلے کچھ دنوں سے جو کچھ کر رہے ہیں، مستقبل میں دوسرے سیاسی گروہوں کی جانب سے بھی ایسا ہی کیا جائے گا اور عمران خان کو خبردار کیا جانا چاہئیے کہ اگر وہ اقتدار میں واپس آتے ہیں تو انہیں دوسروں کی جانب سے اسی قسم کے انحرافی رویے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مختصراً یہ کہ ریاستی رٹ کی اس ناکامی کی منصوبہ بندی بھی خود ریاستی اداکاروں ہی نے کی ہے۔ ناکام ریاستوں کے دیگر معاملات کے برعکس جہاں غیر ریاستی عناصر زیادہ طاقتور ہو جاتے ہیں، یا ریاست مکمل طور پر اپنی قانونی حیثیت کھو بیٹھتی ہے، یہاں ایک ایسا منظر نامہ ہے جہاں ریاستی اداروں کے اندر آپس کی لڑائی کے نتیجے میں انتشار سے ملتی جلتی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔ شاذ و نادر ہی ریاستوں نے اپنی تباہی کے لیے اپنے ہی ہاتھوں سے اس طرح کے حالات پیدا کیے ہوں گے۔
یہاں تک کہ پی ٹی آئی کے عروج کے حوالے سے بہت زیادہ مشہور دائیں بازو کی پاپولزم کا معاملہ بھی سنجیدگی سے غور طلب ہے۔ دوسرے ممالک کے برعکس جہاں پاپولسٹ رہنماؤں نے منظم سیاسی تحریکوں کے ذریعے سے اقتدار حاصل کیا، ہمارے ورژن کی کامیابی کا انحصار ڈیپ سٹیٹ کی کاوشوں اور آئی ایس آئی کے کم از کم چار سربراہوں پر ہے جنہوں نے بیانیہ بنانے، معروضی حالات ترتیب دینے اور ادارہ جاتی معاونت فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جنرل پاشا کی مدد کے بغیر کیا پی ٹی آئی کا 2011 کا لاہور میں ہونے والا 'تاریخی' جلسہ حالیہ تاریخ میں کبھی ایک اہم موڑ بن سکتا تھا؟ یا جنرل ظہیر الاسلام کے 'اچھے دفاتر' کے بغیر کیا 2014 کا دھرنا 126 دن تک جاری رہ سکتا تھا؟ یا سیاسی چیلنجز کو ختم کرنے میں جنرل فیض حمید کی مداخلت کے بغیر کیا عمران خان کو کبھی اقتدار کے لئے منتخب کیا جا سکتا تھا؟ 2022 میں ان کی برطرفی کے بعد بھی کچھ طاقتور اداکاروں کی خاموش حمایت کے بغیر کیا عمران خان بلا خوف و خطر عوام کو متحرک کرنے اور تفرقہ انگیز سیاست کو جاری رکھنے میں کامیاب ہو سکتے تھے؟
انصاف کی بات یہ ہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے پہلے پروجیکٹ تھے اور نہ ہی آخری۔ اس سے قبل 1980 کی دہائی میں نواز شریف اور 1960 کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے پروان چڑھایا تھا۔ لیکن اس بار ان کا یہ جرات مندانہ تجربہ کہیں زیادہ کارآمد ثابت ہوا ہے کیونکہ عمران خان کی متوسط طبقے کے لیے اپیل انتہائی دلکش ہے اور اس اپیل کی گونج اب ریاست کے اہم ستونوں کی صفوں میں بھی سنائی دیتی ہے۔ سماجی طبقات جو غیر منتخب اداروں کو تشکیل دیتے ہیں، عمران خان کی جانب سے عوامی طور پر مذہبی علامتوں کی نمائشں، روایتی سیاسی اشرافیہ سے نفرت، 'کرپشن' کی نیو لبرل تعریف اور امریکہ سے دشمنی جیسے تمام اجزا سے مرعوب نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان گزشتہ حکمرانوں کے شدید دشمن ہیں۔ وہ بیک وقت ان کی پروڈکٹ بھی ہیں اور ان کے مخالف بھی۔
وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں عمران خان نے حالیہ آرمی چیف کو اپنی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار قرار دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ سابق فوجی سربراہ جنرل قمر باجوہ کے کورٹ مارشل کے مطالبے کے بعد عمران خان نے اب اعصاب کی جنگ میں اپنا کھیل تیز کر دیا ہے۔ کیا اعلیٰ ترین عہدے پر فائز شخص انہیں ڈھیل دے گا یا عمران خان سے کوئی مُک مُکا کرے گا یا اس لمحے کو ایسا مقام سمجھے گا جہاں سے واپسی ناممکن ہے، یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔ عمران خان کا اپنی موجودہ حکمت عملی پر اعتماد کارآمد ثابت ہو رہا ہے۔ حمایت پر مائل عدلیہ اور منقسم اسٹیبلشمنٹ، بدنام سیاسی حریفوں اور میڈیا کی منقسم حکمت عملی کی موجودگی میں عمران خان اقتدار میں واپسی کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر انہیں نااہل بھی قرار دے دیا جاتا ہے جس کے امکانات کافی زیادہ ہیں، اس کے باوجود جب بھی انتخابات ہوتے ہیں تو وہ ان میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔
ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا پیدا کردہ بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ نظام کے کریش کر جانے کی تمام شرائط پوری ہوتی نظر آ رہی ہیں۔
رضا رومی کا یہ مضمون The Friday Times میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔