افغانستان کے میڈیا نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ پاک فضائیہ نے افغانستان میں پاکستانی طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے ہیں۔
افغانستان سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق پاکستان کے قبائلی اضلاع شمالی اور جنوبی وزیرستان کے ساتھ مشترکہ سرحد پر واقع صوبوں خوست اور پکتیکا میں بالترتیب دو مختلف علاقوں میں پاکستانی طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے گئے۔
مقامی ذرائع نے خراسان ڈائری کو بتایا کہ اس حملے میں دو الگ الگ مقامات کو نشانہ بنایا گیا، جن میں صوبہ پکتیکا میں لامان اور صوبہ خوست میں پاسا میلہ شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک حملے میں صوبہ پکتیکا کے لامان میں تحریک طالبان پاکستان کے کمانڈر عبداللہ شاہ کے گھر کو نشانہ بنایا گیا۔
یہ واقعہ 18 مارچ کو رپورٹ کیا گیا ہے لیکن اس حوالے سے حتمی طور پر نہیں بتایا گیاکہ واقعہ ایک روز قبل پیش آیا یا 18 مارچ کو ۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
ذرائع نے بتایا کہ کم از کم تین اور علاقوں میں دھماکے ہوئے ہیں۔
کمانڈر عبداللہ شاہ جو ٹوبگر کے نام سے جانا جاتا ہے جنوبی وزیرستان بالائی کے علاقے شکتوئی کا رہائشی ہے۔ ٹی ٹی پی کے ذرائع نے بھی حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی کمانڈر کا گھر ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے۔
دریں اثناء ایک حملے میں ملوث 7 عسکریت پسند جس کے نتیجے میں 2 افسران سمیت 7 پاکستانی فوجی اہلکار ہلاک ہوئے، رات گئے انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن میں مارے گئے۔
تاہم اس حوالے سے سرکاری سطح پر کسی قسم کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔
اس سے قبل پاکستان کے نمائند خصوصی برائے افغانستان آصف علی درانی کا بیان سامنےآیا تھا جس میں انہوں نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں کی موجودگی کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے 5 سے 6 ہزار لوگوں کو پناہ حاصل ہے۔
آصف علی درانی نے یہ بیان پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے زیر اہتمام ”افغانستان میں امن اور مصالحت: پاکستان کے مفادات اور پالیسی آپشنز“ سیمینار کے دوران دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے پاس اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغان پراکسیز کے ذریعے بھارت سے رقم حاصل کر رہی ہے۔ اندازہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے 5 سے 6 ہزار عسکریت پسندوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے۔ مذاکرات کے دوران پاکستان نے کابل میں عبوری حکومت سے کہا تھا کہ ٹی ٹی پی کو ہتھیار ڈالنے اور گروپ کو غیر مسلح کرنے اور اس کی قیادت کو حراست میں لینے کی ضرورت ہے۔
تاہم افغان طالبان کی حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے آصف علی درانی کے بیان کی تردید کرتے ہوئےکہا کہ ہم افغانستان میں کسی غیر ملکی گروہ کی موجودگی کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں اور کسی کو افغان سرزمین کے استعمال کی جازت نہیں دیتے۔ہم کسی کو افغان سرزمین پر آپریٹ کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ لیکن ایک بات ہمیں قبول کرنی چاہیئے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان طویل سرحد ہے جہاں پہاڑ اور جنگلات واقع ہیں۔ اورایسے علاقے موجود ہیں جو ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں۔