کرونا پاکستان میں وبائی شکل میں نہیں ہے، جس موت کو چاہے کرونا کا شکار قرار دے رہے ہیں: چیف جسٹس

01:48 PM, 18 May, 2020

اسد علی طور
جب کا کرونا وائرس پاکستان میں آیا ہے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کی سماعت بھی مؤخر ہو چکی ہے۔ اس لئے کرونا وائرس کے آنے کے بعد پہلی بار سپریم کورٹ گیا۔ پارکنگ کے ساتھ ملحقہ دروازے سے احاطہ عدالت میں داخل ہوا تو جیو نیوز کے سینیئر نمائندے آصف بشیر چوہدری سے ملاقات ہوئی جو اپنی پی آئی اے کی اسٹوری نہ چلنے پر ڈیسک کو جلی کٹی سنا رہے تھے۔ سپریم کورٹ کی عمارت میں داخل ہونے سے قبل ٹمپریچر چیک کروانے کے بعد کمرہ عدالت کے باہر موبائل فون جمع کروائے اور کمرہ عدالت میں داخل ہو گیا۔ 11:15 کا وقت تھا اور کمرہ عدالت میں خلاف معمول چند صحافی ہی موجود تھے۔ سب دوستوں کو سینے پر ہاتھ رکھ کر سلام کرتے ہوئے کمرہ عدالت کے دائیں ہاتھ پر موجود ایک نشست سنبھال لی۔

ساڑھے 11 بجے آواز لگی کہ کورٹ آ گئی ہے تو سب لوگ ججز کی تعظیم میں کھڑے ہو گئے۔ پچھلے بنچ میں تبدیلی کے بعد لارجر بنچ میں چیف جسٹس نے دو نئے ججز شامل کیے ہیں جن میں ایک سندھی جج جسٹس سردار مشیر عالم اور دوسرے پنجابی جج جسٹس سردار طارق مسعود ہیں۔ یہی دونوں ججز چیف جسٹس کے دائیں اور بائیں بیٹھ گئے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کے دائیں ہاتھ سنیارٹی لسٹ میں دوسرے نمبر پر موجود جسٹس مشیر عالم اور ان کے ساتھ سنیارٹی لسٹ میں نویں نمبر پر موجود پختون جج جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل موجود تھے جب کہ چیف جسٹس کی بائیں طرف سنیارٹی لسٹ میں موجود جسٹس سردار طارق مسعود اور ان کے ساتھ بھی ایک اور پنجابی جج جسٹس قاضی محمد امین احمد موجود تھے جو سنیارٹی لسٹ میں چودہویں نمبر پر موجود ہیں۔

بنچ کے دو ججز جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس قاضی محمد امین احمد نے فیس ماسک نہیں لگا رکھے تھے لیکن باقی تینوں ججز، دربانوں اور تمام عدالتی عملے نے فیس ماسک پہن رکھے تھے۔ ججز بیٹھ گئے تو ڈپٹی اٹارنی جنرل روسٹرم پر آ کے کھڑے ہو گئے جب کہ کراچی رجسٹری سے اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان وڈیو لنک پر لائیو کھڑے تھے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے سوال پوچھا کہ بتائیے کیا فیصلے لیے ہیں۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ این سی او سی نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ ملک کا تعمیراتی شعبہ ایس او پیز کے ساتھ مکمل طور پر کھول دیا جائے گا جب کہ ملک بھر کی کمیونٹی مارکیٹس کھولنے کا فیصلہ بھی ہوا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ یہ کمیونٹی مارکیٹس کیا ہیں؟ کیا زینب مارکیٹ، راجہ بازار اور میمن مسجد والی ہول سیل مارکیٹ کمیونٹی مارکیٹ ہے؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جو بھی دکانیں کھلی جگہ پر ہوں گی وہ کمیونٹی مارکیٹ کہلائیں گی جب کہ جو بند عمارت میں ہیں وہ مال ہوں گے۔ چیف جسٹس نے اب سوال پوچھا کہ کیا مالز کھولنے کی اجازت دی ہے اور کہاں کہاں مالز ہیں ملک میں؟ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اسلام آباد میں سفا گولڈ مال، سینٹورس مال اور گیگا مال ہیں جن کو آج سے کھولا جا رہا ہے، اسی طرح ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بھی عدالت کو بتایا کہ پنجاب حکومت بھی آج سے مالز کھول رہی ہے۔

چیف جسٹس نے کمشنر کراچی افتخار شاہ کو نام لے کر مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ کراچی میں کون کون سے مال ہیں؟ کمشنر کراچی نے جواب دیا کہ ڈالمن مال، لکی مال، اوشین مال اور ملینیم مال ہیں لیکن کھولنے کی اجازت نہیں دی کیونکہ رش بہت ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہاں بہت سے لوگ ونڈو شاپنگ کرنے چلے جاتے ہیں۔ کمشنر کراچی نے جواب دیا کہ بہت سی مارکیٹس کو ایس او پیز کی خلاف ورزی پر بند کیا ہے۔

چیف جسٹس نے اب ریمارکس دیے کہ چھوٹی مارکیٹس بھی کھلوا دیں کرونا سے نہ بھی مریں تو لوگ بھوک سے مر جائیں گے۔ یاد رکھیے، وزیر اعظم عمران خان کا بھی یہی مؤقف ہے۔ چیف جسٹس نے کمشنر کراچی کو ہدایت کی کہ زینب مارکیٹ کھلوا دیں، بہت غریب پرور مارکیٹ ہے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کراچی کی انتظامی مشینری کا بظاہر کنٹرول صوبائی حکومت سے اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کمشنر کراچی کو ہدایت کی کہ کسی کاروبار کو رکاوٹ پیش نہ آئے اور آپ یقینی بنائیں گے ایس او پی کی خلاف ورزی پر آپ جائیں گے، تاجروں کو سمجھائیں گے، لیکن نہ تو دھمکائیں گے اور نہ کسی قسم کی رشوت لی جائے گی۔

یہاں بھی وزیراعظم عمران خان یاد آئے۔ وہ بھی متعدد بار پولیس اور انتظامیہ سے لوگوں سے نرم رویہ اختیار کرنے کا کہہ چکے ہیں۔ چیف جسٹس خاموش ہوئے تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایس او پیز کے تحت ہفتہ اور اتوار کو بازار بند ہوں گے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے آبزرویشن دی کہ عید کے قریب ہفتہ اور اتوار کو اگر بازار بند ہیں تو بچتا کیا ہے؟َ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل اور کمشنر کراچی کو مخاطب کیا کہ آپ کے گھر والے نئے کپڑے نہیں پہننا چاہتے تو جن کے گھر والے نئے کپڑے عید پر پہننا چاہتے ہیں ان کا کیا قصور ہے؟ چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ بہت سے لوگ صرف سال میں ایک ہی بار عید پر نئے کپڑے پہنتے ہیں۔ (جب چیف جسٹس عید پر عام آدمی کے نئے کپڑے پہننے کی خواہش کی وکالت کر رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ اگر لوگ نئے کپڑے پہنیں گے تو وہ یقیناً چاہیں گے کہ لوگ ان کو نئے کپڑوں میں دیکھیں بھی اور اس کے لئے وہ عید ملن دعوتوں کا خصوصی احتمام بھی کریں گے تو پھر سماجی فاصلے کا اصول جو عالمی ادارہ صحت نے ماہرین طب اور چین کے کامیاب ماڈل کو سامنے رکھتے ہوئے طے کیا تھا وہ تو ہوا میں اڑ جائے گا۔)

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سر یہ فیصلہ عالمی وبا کی وجہ سے لیا گیا ہے۔ اب چیف جسٹس برہم ہو گئے اور انہوں نے ریمارکس دیے کہ آپ بتائیں ہفتہ، اتوار کو کیا کرونا نہیں ہوتا ہے؟ سورج مشرق کی بجائے مغرب سے نکلتا ہے؟ چیف جسٹس نے حکومتی دلیل مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم آرڈر دیں گے کہ ہفتہ اور اتوار بازار بند نہیں ہوں گے۔ چیف جسٹس نے پنجاب سے پوچھا کہ آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ ہم نے بازار اور مالز کھولنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس نے یہ سن کر ایڈوکیٹ جنرل سندھ کو مخاطب کر کے استفسار کیا کہ اگر بازار کھلے ہیں تو مالز کیوں بند ہیں؟ آپ چیف سیکریٹری سندھ کو بلا لیں پھر ہم فیصلہ لکھوا دیں گے۔

اس دوران جسٹس سردار طارق مسعود نے جسٹس مشیر عالم سے کچھ گفتگو کرنا چاہی۔ دلچسپی کی بات ہے کہ چیف جسٹس نے دوران سماعت فیس ماسک کو نیچے کر دیا تھا لیکن جسٹس مشیر عالم اور جسٹس سردار طارق مسعود نے پوری سماعت کے دوران فیس ماسک پہنے رکھا۔ چیف جسٹس کے سوال پر خیبر پختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان نے پانچ رکنی لارجر بنچ کو آگاہ کیا کہ ان کے صوبوں میں کوئی مال نہیں ہے اور بازار سب کھول دیے گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے دوبارہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سب مالز کھول رہے ہیں، اگر آپ نہیں کھولیں گے تو ہم آرڈر لکھوا دیں گے کہ مال کھول دیں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے دلیل دی کہ ہم صرف این او سی کے فیصلہ کی پابندی کر رہے ہیں جس میں واضح طور پر لکھا تھا کہ مالز بند رکھنے کے فیصلہ پر 31 مئی کو نظر ثانی کی جائے گی جب کہ آج صرف 18 تاریخ ہوئی ہے۔

چیف جسٹس نے حیران کن طور پر سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل کی بات کو مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے تو کیا ہوا اگر 31 مئی طے پائی تھی لیکن این سی او سی با اختیار ادارہ ہے، وہ کبھی بھی نظر ثانی کر سکتا ہے۔ اس موقع پر پنجاب کے ایڈووکیٹ جنرل نے آرٹیکل 144 کا حوالہ دے کر کہا کہ یہ شق صوبوں کو اختیار دیتی ہے کہ وہ اپنے لئے قانون سازی کر سکیں اور فیصلے لے سکیں۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے این سی او سی سے مالز کھولنے کے لئے اجازت طلب کی ہے جو آج کسی وقت مل جائے گی جس کے بعد مالز کھل جائیں گے۔

اس کے بعد چیف جسٹس نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے نمائندے کو روسٹرم پر طلب کیا اور استفسار کیا کہ حاجی کیمپ پر کتنے پیسے لگے ہیں؟ این ڈی ایم اے کے نمائندے نے جواب دیا کہ 59 ملین۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو مقصد تھا وہ تو پورا نہیں ہوا لیکن چلیں یہ بہتری اب حاجیوں کے کام آ جائے گی۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر این ڈی ایم اے کے نمائندے سے پوچھا کہ بجٹ کیا تھا حاجی کیمپ کی سہولت کے لئے؟ این ڈی ایم اے کے نمائندے نے جواب دیا 300 ملین روپے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا 50 منزلہ عمارت بنا رہے تھے جو اتنے پیسے مختص کر دیے؟

چیف جسٹس کے سوال پر این ڈی ایم اے کے نمائندے نے پانچ رکنی لارجر بنچ کو آگاہ کیا کہ این ڈی ایم اے کو 25 ارب کا بجٹ جاری کیا جا چکا ہے۔ چیف جسٹس نے ساتھ ہی این ڈی ایم اے کے نمائندے سے سوال کیا کہ آپ بتائیں فی کس مریض کتنا خرچہ آ رہا ہے؟ این ڈی ایم اے کے نمائندے نے جواب دیا کہ یہ شرح نکال کر بتانی پڑے گی۔ چیف جسٹس نے عدالتی عملے کو ہدایت دی کہ صاحب کو کیلکولیٹر دیں تاکہ یہ ایوریج نکال کر ابھی بتائیں۔ این ڈی ایم اے کے نمائندے نے ایوریج نکال کر عدالت کو بتایا کہ چالیس مریضوں کے لحاظ سے فی کس یہ خرچ 6 لاکھ 25 ہزار بنتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 6 لاکھ 25 ہزار اگر ہر کسی کو دے دیے جاتے تو سوچیے ان کے حالات کتنے بہتر ہو جاتے۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے آبزرویشن دی کہ سوچیے ابھی باہر سے کتنی امداد آ رہی ہے جو سب پاکستانیوں کو دے دیں تو ہر ایک کو ایک کروڑ مل جائے، آپ لوگ کیا کررہے ہیں؟ (چیف جسٹس جب پاکستانیوں کو کروڑ پتی کرنے کا یہ سادہ نسخہ پیش کر رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ یہ کن اعداد و شمار اور معاشی اشاریوں کی بنیاد پر چیف جسٹس ایسی آبزرویشن دے رہے ہیں کیونکہ پاکستان کے تمام معاشی ماہرین کی رائے اس کے برعکس ہے۔ مجھے اس موقع پر ڈاکٹر فرخ سلیم کا فروری 2016 کا ایک آرٹیکل یاد آ گیا جس میں موصوف نے دلیل دی تھی کہ جتنی لاگت سے پنجاب حکومت 2.5 لاکھ مسافروں کے لئے اورینج لائن ٹرین بنانے جا رہی ہے اتنے پیسوں میں فی مسافر کو سوزوکی مہران بھی لے کر دی جا سکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے ڈاکٹر فرخ سلیم نے اپنی اس انقلابی معاشی تجویز کے ساتھ وضاحت نہیں کی تھی کہ اگر ایک ساتھ اورینج لائن ٹرین کے روٹ پر 2.5 لاکھ سوزوکی مہران آ گئیں تو ٹریفک کا حال کیا ہوگا۔)

چیف جسٹس گلزار احمد رکے نہیں اور انہوں نے  این ڈی ایم اے کے نمائندے کو کہا کہ اگر آپ صوبوں کا خرچ بھی نکال لیں تو فی مریض 25 لاکھ روپے بن جائیں گے۔ پانچ رکنی لارجر بنچ کے سربراہ چیف  جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ آپ کا بجٹ 500 ارب روپے بن رہا ہے جب کہ احساس پروگرام کی رقم اس کے علاوہ ہے۔ چیف جسٹس این ڈی ایم اے کے نمائندے سے سوال پوچھا کہ آپ فی مریض قریباً 50 لاکھ روپے خرچ کر رہے ہیں تو اس کو جائز قرار دینے کا کیا جواز لائیں گے؟

این ڈی ایم اے کے نمائندے نے جواب دیا کہ سر یہ پیسہ صرف مریض پر نہیں خرچ ہو رہا بلکہ اس میں تمام آپریشن کے اخراجات بھی شامل ہیں جس کے تحت اسپتالوں اور قرنطینہ سینٹر کا قیام بھی شامل ہے۔ چیف جسٹس نے جھنجلا کر این ڈی ایم اے کے نمائندے سے پوچھا کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا خرچہ آ رہا ہے اور آپ مریضوں کو دیتے کیا ہیں؟ این ڈی ایم اے کے نمائندے نے شاید اب ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور چیف جسٹس کو جواب دیا کہ مریضوں کو ہم نہیں محکمہ صحت کے لوگ دیتے ہیں جو بھی دینا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے اب چونک کر اگلا سوال پوچھا کہ تو پھر آپ کیا دے رہے ہیں اس بجٹ میں؟ این ڈی ایم اے کے نمائندے نے جواب دیا کہ سر ہم تو حفاظتی لباس اور آلات دے رہے ہیں۔

اب جسٹس قاضی محمد امین احمد نے مداخلت کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ این ڈی ایم اے کہ اعدادوشمار اخراجات سے نہیں مل رہے اور کیونکہ یہ عوام کا پیسہ ہے تو ہمیں اس کی فکر ہے۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر این ڈی ایم اے کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ نے کچھ کیا ہے؟ ٹڈی دل کا کیا کر لیا؟ اگلے سال اب آپ کو کوئی فصل نہیں ملے گی۔ (اب مجھے ایک اور جھٹکا لگا کہ پاکستان کے سب سے بڑے آئینی ادارے کے سربراہ کن اعداد و شمار یا رپورٹس کی بنیاد پر یہ پریشان کن خبر دے رہے ہیں کہ پاکستان میں ٹڈی دل کی وجہ سے اگلے سال کوئی فصل ہوگی ہی نہیں۔)

چیف جسٹس نے انتہائی پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کا کہ اس ملک میں آخر ہو کیا رہا ہے؟ جو صنعتی اور کاروباری سیکٹر ملک کو 80 فیصد ریونیو دیتا ہے وہ سارا بند پڑا ہے؟ جس پر سارا ملک انحصار کرتا ہے وہ بند کر دیا ہے۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ حفاظتی لباس پر 25 ارب خرچ کر رہے ہیں لیکن انڈسٹری بند پڑی ہے۔ اب این ڈی ایم اے کے نمائندے بولے کہ 2 ارب صرف حفاظتی طبی لباس پر نہیں خرچ ہو رہا، اس میں ایکسرے مشینیں اور دیگر آلات بھی ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ آلات پاکستان میں کیوں نہیں بن سکتے؟ این ڈی ایم اے کے نمائندے نے جواب دیا کہ نہیں بن سکتے۔

جسٹس قاضی محمد امین احمد نے ایک بار پھر مداخلت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ این ڈی ایم اے دانشمندی سے پیسے خرچ نہیں کر رہا۔ چیف جسٹس گلزار احمد کا مزید کہنا تھا کہ حکومت زمینی حقائق نہیں دیکھ رہی۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے مثال دی کہ پورٹ بند پڑا ہے جب کہ اربوں کا سامان اب سمندر میں پھینکنا پڑے گا۔ (معزز چیف جسٹس نے لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ اربوں کا کون سا سامان ہے جو سمندر میں پھینکا جائے گا اور یہ اعدادوشمار کہاں سے آئے ہیں۔)

چیف جسٹس نے اپنی بار آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ لوگ سرمایہ کاری کر کے بیکار بیٹھے ہیں جب کہ آپ لوگ پیسہ یہاں خرچ کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے این ڈی ایم اے کے نمائندے سے سوال کیا کہ آپ کو معلوم ہے ہر سال صرف اسلام آباد میں پولن سے کتنے لوگ مرتے ہیں؟ این ڈی ایم اے کے نمائندے نے نفی میں جواب دیا تو چیف جسٹس نے کمرہ عدالت میں موجود سیکرٹری صحت کو روسٹرم پر طلب کر کے سوال کیا کہ پولن الرجی سے ہر سال اسلام آباد میں کتنے لوگ مرتے ہیں؟ سیکرٹری صحت نے جواب دیا کہ لگ بھگ ایک ہزار سالانہ۔ چیف جسٹس نے این ڈی ایم اے کے نمائندے کو جواب دیا کہ دیکھیں صرف ایک شہر اسلام آباد میں ایک ہزار تو سال میں پولن الرجی سے مر جاتے ہیں اور ابھی ڈینگی نے بھی آنا ہے لیکن آپ اتنے زیادہ اخراجات صرف کرونا وائرس پر کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے اس موقع پر انتہائی اہم اور حیران کن آبزرویشن دی کہ حکومت ایک ایسی بیماری پر پیسہ لگا رہی ہے جو نظر ہی نہیں آتی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ جس بھی موت کو دل چاہے کرونا کی موت قرار دے دیتے ہیں اور سرکاری اسپتال سے کروائیں تو کرونا ٹیسٹ پازیٹیو آتا ہے لیکن وہی ٹیسٹ پرائیویٹ لیبارٹری سے کروائیں تو نیگیٹو آتا ہے۔ دلچسپی کی بات ہے چیف جسٹس یہ ریمارکس ایک ایسے وقت میں دے رہے تھے جب پاکستان میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 43 ہزار اور کرونا سے اموات کی تعداد 900 کا ہندسہ پار کر چکی ہے اور چیف جسٹس کے عملے کے ایک رکن کا کرونا ٹیسٹ پازیٹیو آنے کے بعد چیف جسٹس خود بھی قریباً دو روز سپریم کورٹ نہیں آئے تھے جب کہ چیف جسٹس سمیت تمام ججز اور عدالتی عملہ سمیت درجنوں سپریم کورٹ کے ملازمین کے کرونا ٹیسٹ بھی کروانے پڑے تھے۔

چیف جسٹس نے حکومتی مشینری کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ پاکستان کے لوگ غلام نہیں ہیں کہ آپ فیصلہ کریں کہ سو جاؤ تو وہ سو جائیں گے۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ممالک قوانین کے تحت چلتے ہیں اور میرے ملک کے لوگ بہت غریب ہیں، انہیں روٹی چاہیے۔ چیف جسٹس نے آنے والے دنوں کی پریشان کن منظر کشی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ کو اندازہ ہے چار ماہ بعد کروڑوں لوگ بےروزگار ہوں گے اور صنعتکار مک چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔ چیف جسٹس نے سوالیہ انداز میں آبزرویشن دی کہ جب ملک کے گلی کوچوں میں کروڑوں لوگ سڑکوں پر ہوں گے تو حکومت کیا کر لے گی؟ کیا سب کو گولی ماریں گے؟

اس موقع پر جسٹس قاضی محمد امین احمد نے سیکرٹری ہیلتھ پنجاب سے پوچھا کہ کیا یہ سچ ہے کہ ہولی فیملی اور دیگر اسپتالوں میں مریض علاج کے لئے جاتے ہیں لیکن ڈاکٹر انہیں پرائیویٹ اسپتالوں کو بھجوا رہے ہیں جو کہ دراصل ان ڈاکٹروں کے اپنے ہیں؟ کیا یہ مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہے؟ سیکرٹری ہیلتھ نے جواب دیا کہ ہم دیکھ لیتے ہیں اگر ایسا کسی پروفیسر ڈاکٹر نے کیا ہے تو یہ کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہے کیونکہ حکومت نے ایسی کوئی پالیسی نہیں دی۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری ہیلتھ کو ٹوکتے ہوئے برہمی سے کہا کہ یہیں رک جائیں، اگر ایسا ہو رہا ہے تو آپ کیا کر رہے ہیں؟ سیکریٹری صحت پنجاب نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ وہ معاملہ کی تحقیقات کریں گے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی ہوگی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈاکٹر قابل عزت ہیں لیکن شعبہ طب میں کالی بھیڑیں بھی ہیں۔ چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ڈاکٹروں کے ادویات ساز کمپنیوں سے رابطے ہیں اور تحفے لیتے ہیں، گھروں میں صوفے اور دیگر فرنیچر لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ایک بار پھر برہم ہوتے ہوئے ریمارکس دیے کہ بری سے بری دوائی سرکاری اسپتالوں میں ملتی ہے۔ سو بندہ لائن میں لگا ہوتا جب کہ اندر ملازم سیگریٹ پی رہا ہوتا ہے یا موبائل فون پر بات کر رہا ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ او پی ڈی میں 200 مریض انتظار کر رہے ہوتے ہیں اور ڈاکٹر اندر بیٹھے چائے پی رہے ہوتے۔

سیکریٹری ہیلتھ نے چیف جسٹس کی آبزرویشن سے اتفاق کیا تو چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سوال پوچھا کہ اگر میں ٹھیک کہہ رہا ہوں تو آپ کیا کر رہے ہیں؟ اسپتالوں میں کیمرے کیوں نہیں لگاتے؟ سب کی کارکردگی ریکارڈ ہو۔ سیکرٹری صحت نے جواب دیا کہ وہ قانون دیکھ کر کیمرے لگوائیں گے کہ کہاں کہاں کیمرے لگ سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹری ہیلتھ کو ہدایت کی کہ ہر جگہ کیمرے لگائے جائیں۔ سیکرٹری ہیلتھ نے جواز دیا کہ ایسی جگہ پر کیمرے نہیں لگ سکتے جہاں مریض کا جائزہ لیا جاتا ہے کیونکہ مریض کی پرائیویسی کا احترام کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری ہیلتھ کے جواز کو رد کرتے ہوئے کہا کہ تو کیا ہوا، کیمرے کی وڈیو رہے گی تو آپ کے پاس ہی نا؟ کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ ہر جگہ کیمرے لگائیں۔

اب چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوانا شروع کر دیا۔ چیف جسٹس نے این سی او سی کا ہفتہ اتوار کو بازار بند کرنے کا فیصلہ خلاف قانون کہہ کر کالعدم قرار دے دیا اور مالز کھولنے کے لئے سندھ کو ہدایت دی کہ وہ این سی او سی کو خط لکھ کر اجازت طلب کریں اور اگر این سی او سی اجازت دے تو مالز کھول دیے جائیں۔ چیف جسٹس نے این ڈی ایم اے کے اخراجات پر حکمنامہ میں لکھوایا کہ سمجھ نہیں آ رہا کہ اتنا پیسہ صرف حفاظتی لباس پر کیوں لگایا جا رہا ہے؟ اور کرونا وائر پر اتنا پیسہ لگایا ہے حالانکہ پاکستان کرونا سے بری طرح متاثر بھی نہیں ہوا۔ پاکستان میں تو اور بھی بہت سی بیماریوں اور مسائل کی وجہ سے لوگ مر رہے ہیں لیکن ان پر تو اتنے پیسے نہیں لگائے جاتے۔ پاکستان میں کرونا نے وبا کی شکل اختیار نہیں کی کہ اس پر اتنا پیسہ لگا دیا جائے۔ صرف پولن الرجی سے اسلام آباد میں ایک ہزار بندہ سالانہ مرتا ہے اور اگر ملک بھر میں دیگر بیماریوں بشمول کینسر، برین ہیمرج، ڈینگی، ملیریا، ہارٹ اٹیک وغیرہ شامل کر دیے جائیں تو پاکستان میں سالانہ اموات کی تعداد لاکھوں میں چلی جائے گی تو حکومت صرف کرونا پر ہی پیسہ مت لگاتی جائے۔ حکومت صرف کرونا پر پیسہ لگاتی جارہی ہے جب کہ پورا ملک عملاً معطل ہو کر رہ گیا ہے۔

کمرہ عدالت سے پارکنگ تک پہنچتے ہوئے چیف جسٹس کے ریمارکس اور حکمنامے میں خصوصاً کرونا وبا جملے ذہن میں گونج رہے تھے۔ یہی سوچتا رہا کہ کیا پوری دنیا نے جو لاک ڈاؤن کیے، مالز بند کیے، وہ غلط تھا؟ کیا پوری دنیا اس وائرس کی روک تھام کے لئے جو اخراجات کر رہی ہے، ہنگامی اقدامات لے رہی ہے۔ وہ جلد بازی میں ہیں؟ اور عالمی ادارہ صحت، ریسرچ اداروں اور پاکستان سمیت پوری دنیا کے ڈاکٹروں کے ذہنوں پر کرونا کا غیر ضروری خوف سوار ہے؟ کیا پوری دنیا کے ڈاکٹرز اور صحت کے عالمی ادارے نااہل اور پاکستان کے وزیراعظم اور عدالت عظمیٰ ماہر طب نہ ہو کر بھی وائرس کو ڈاکٹروں سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں؟ بہرحال، بظاہر چیف جسٹس گلزار احمد وزیر اعظم عمران خان کے خیالات کے قریب نظر آئے لیکن این ڈی ایم اے پر آج کا دن بھاری رہا۔
مزیدخبریں