تفصیلات کے مطابق 17 مئی کو تنظیم اہل السنت والجماعت گلگت بلتستان کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ تنظیم اہل سنت والجماعت اور دیگر دینی و سیاسی جماعتوں کے علما اور عمائدین کا اہم اجلاس امیر تنظیم کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ ایک فریق مسلسل امن و امان کو خراب کرنے پر تلا ہے اور مختلف انداز سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین کا سلسلہ جاری ہے۔ لہٰذا قیام امن کے لئے جملہ مسلمان آئینی اور جمہوری کردار ادا کریں گے۔ دوسرے مسلک پر توہین صحابہ رضی اللہ عنہم کا مقدمہ بھی درج کروایا جائے گا۔ نیز مناظرہ اور مباہلہ کے چیلنج کو بھی قبول کر کے مقام اور وقت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
دوسری جانب مرکزی امامیہ کونسل گلگت بلتستان نے اسی روز جوابی اعلامیہ جاری کرتے ہوئے مرکزی خطیب اہل سنت جامع مسجد گلگت کو ایک خط لکھا جس میں کہا گیا کہ آپ کی طرف سے مناظرہ کی دعوت موصول ہونے پر آغا راحت حسین الحسینی صاحب نے خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کھلے دل سے قبول کیا ہے۔ اگرچہ ہماری طرف سے دعوت حق اخلاص پر مبنی تھا کہ تمام مسلمان مذہب کما حقہ قبول کر کے دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی حاصل کریں۔
چونکہ ماضی میں مناظرے بہت ہوئے جن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، لہٰذا اس بار مباہلہ کا فیصلہ ہوا ہے تاکہ حقیقت عیاں ہو اور علاقے سے فساد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو اور حق کا بول بالا ہو۔
اس تناظر میں اطلاعات تھیں کہ 21 مئی 2021 بروز جمعہ سہ پہر 3 بجے یہ مباہلہ ہونے جا رہا ہے جس میں شیعہ مسلک سے آغا راحت حسین الحسینی اور اہل سنت ولجماعت سے مولانا قاضی نثار احمد صاحب اپنی حقانیت ثابت کرنے کے لئے آگ میں کود جائیں گے۔ جو بچ جائے گا وہ حق ہوگا، جو جل جائے گا وہ باطل اور فی النار تصور کیا جائے گا۔ تاہم، گلگت بلتستان حکومت کا کہنا ہے کہ اس کا اس سارے معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے ترجمان علی تاج نے حکومت کے معاملے میں ملوث ہونے کی افواہوں کی سختی سے تردید کی ہے۔
مرکزی امامیہ کونسل کے جنرل سیکرٹری نے خط کی کاپیاں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان، سیکرٹری داخلہ گلگت بلتستان، ڈپٹی کمشنر گلگت بلتستان اور ایس ایس پی گلگت کو بھی ارسال کر دی ہیں۔