لاہور ہائیکورٹ کے 5 رکنی بینچ نےحمزہ شہباز کے بطور وزیراعلیٰ حلف کےحوالے سے سنگل بینچ کے فیصلےکے خلاف 3 اپیلوں پر سماعت کی۔
پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی نے پنجاب اسمبلی میں جھگڑے پر بات کی تو جسٹس صداقت علی خان نےریمارکس دیے کہ بینچ کے سامنے یہ معاملہ نہیں کہ الیکشن میں جھگڑا کیوں اورکیسے ہوا اور کس نےکیا۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے بتایا کہ انہوں نے عدالتی حکم پر جواب داخل کرانے کے لیے ملازم بھیجا لیکن ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل جواد یعقوب نے اس سے کاپی لے کر پھاڑ دی۔
بینچ نے قرار دیا کہ یہ انتظامی معاملہ ہے، عدالت مداخلت نہیں کرے گی، سماعت کے دوران پی ٹی آئی کےوکیل امتیاز صدیقی اور بینچ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا، امتیاز صدیقی کی آواز بلند ہوئی تو جسٹس صداقت نے کہا کہ آپ نے صرف معاونت کرنا ہے، فیصلہ عدالت نےکرنا ہے، امتیاز صدیقی نےکہا کہ آپ مجھے بولنے نہیں دیں گے تو میں یہ سارا کچھ بند کر دیتا ہوں۔
اس پر جسٹس صداقت نے کہا کہ یہ آپ کی مرضی ہے، آپ کو عدالت کے مطابق چلنا ہوگا،آپ حد سے تجاوز نہ کریں، اس دوران جسٹس شہرام سرور نے بھی امتیاز صدیقی کو روکا اورکہا کہ آپ نے جو بول دیا، اس کے بعد مزید برداشت نہیں ہو گا، اس پر امتیاز صدیقی نے معذرت کر لی اورکہا کہ وہ عمر کے ایسے حصے میں ہیں جہاں بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے۔
بعدازاں عدالت نے مزید سماعت ملتوی کرتے ہوئے ہدایت کی کہ اگر وزیر اعلیٰ کے الیکشن کےخلاف سپریم کورٹ میں کوئی درخواست دائر ہوئی ہے تو آئندہ سماعت پر عدالت کو آگاہ کیا جائے۔