عمران خان نے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے دن سے ایک بیانیہ بنانے کی کوشش کی ہے جس کے تحت اپوزیشن کی حکومت پر تنقید کی وجہ یہ نہیں کہ حکومت ناکام ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن تنقید اور احتجاج سے حکومت کو دباؤ میں لا کر ڈیل کے ذریعے این آراو حاصل کرنا چاہتی ہے اور وہ کبھی اپوزیشن کو این آر او نہیں دیں گے۔
اگر نواز شریف جیل سے آزادی چاہتے ہیں تو لوٹی ہوئی دولت واپس کر کے نیب کے پلی بارگین قانون کے تحت رہائی حاصل کر سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ حکومتی حلقوں کی طرف سے بارہا نواز شریف کے گھر سے کھانا منگوانے کی بھی مخالفت کی جاتی رہی اور ان کے سیل میں موجود اے۔سی اور ٹی وی پر بھی اعتراضات اٹھائے جاتے رہے۔ یہ بھی اعتراض ہوتا رہا کہ نواز شریف تین بار ملک کے وزیراعظم رہے اور چار بار پنجاب کی وزارت اعلیٰ ان کے بھائی کے پاس رہی تو کیا وہ ایک بھی ایسا ہسپتال نہ بنا سکے جس میں ان کا علاج ممکن ہوتا۔
اہم بات یہ ہے کہ جب ملک میں مارشل لاء جیسی صورت حال ہو، میڈیا پر بھی دباؤ ہو اور اپوزیشن کی بھی پکڑ دھکڑ جاری ہو تو ایسی ہیجانی کیفیت میں بظاہر حکومت کے اعتراضات بہت جاندار لگتے ہیں لیکن اگر میڈیا سے دباؤ ہٹا لیا جائے اور اظہار رائے کی آزادی ہو تو حکومت کے یہ اعتراضات بہت ہی بے معنی سے ہو کر رہ جائیں گے یا اگر کوئی انفرادی طور پر بھی ان حکومتی اعتراضات کا تاریخ کے آئینے میں بغور جائزہ لے تو وہ ان اعتراضات کو بے معنی اور بد نیتی پر مبنی قرار دے کر مسترد ہی کرے گا۔
نوازشریف کا گھر سے کھانا بند کروانے کی بات ایک ایسے ملک کی عوام کے سامنے دھڑلے سے کی جاتی ہے جس کا ہر وزیراعظم سازش کا شکار ہوا اور اس بار بھی مختلف نہیں ہوا.
اب خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ نواز شریف کے پلیٹیلیٹس میں کمی کھانے میں زہر دیئے جانے سے بھی ممکن ہے، اس صورت حال کا بننا حکومت کی جانب سے کھانا بند کروانے کے اقدام کو غلط اور نواز شریف کے گھر سے کھانا منگوانے کے عمل کو درست ثابت کرتا ہے۔
نواز شریف کو عدالت سے صرف قید کی سزا ملی ہے، موت کی نہیں۔ اس لیے اگر جیل میں کسی بھی وجہ سے ان کی جان کو خطرہ ہو تو ان کی جان بچانا حکومت کا فرض ہے۔ نواز شریف کو جیل میں اے۔ سی اس وجہ سے نہیں دیا گیا تھا کہ انہیں گرمی لگ رہی تھی بلکہ اس لیے دیا گیا کیونکہ وہ کروڑوں لوگوں کے نمائندہ لیڈر ہیں اور دل سمیت مختلف امراض کا شکار ہیں، ان کا زیادہ پسینہ نکلنے سے خون گاڑھا ہو سکتا ہے۔ جس سے دل کا دورہ پڑنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور جیل میں اس طرح ان کو اگر کچھ ہو جاتا تو ملک میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا، جیسا کہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ہوا تھا اس بڑے نقصان سے بچنے کے لیے انہیں یہ سہولت ریاست کو دینی ہی چاہیے تھی۔ اس اعتبار سے وزیر اعظم کا نواز شریف کے سیل کا اے۔سی اتروانے کا شوق ملک کی سلامتی سے زیادہ سیاست کو اہم سمجھنے کی علامت ہے۔
اس پر یہ اعتراض کہ جو سہولتیں نواز شریف کو جیل میں میسر ہیں وہ تمام قیدیوں کو ملنی چاہیے اور اگر نواز شریف کو ملک سے باہر علاج کروانے کی سہولت دی جارہی ہے تو باقی قیدیوں کو بھی یہ سہولت ملنی چاہیے۔ بلکل ملنی چاہیے، اگر کسی شخص کو صرف قید کی سزا سنائی گئی ہے تو اسے جس بھی طرح کا جان کا خطرہ لاحق ہو، اسے اس کے مطابق سہولت دینا حکومت کی ذمہ داری ہے اور ویسے بھی نواز شریف حکومت کے خرچے پر بیرون ملک نہیں جا رہے، اپنے ذاتی خرچ پر جا رہے ہیں۔ نواز شریف تو ضمانت پر ہیں کوئی اور قیدی بھی طبی بنیاد پر درخواست دیتا ہے تو اسے علاج کے لیے باہر جانے کی اجازت ضرور ملنی چاہیے اور اگر ضمانت پر نہیں بھی ہو تو قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں بھی باہر جایا جاسکتا ہے بشرطیکہ کہ تمام اخراجات قیدی برداشت کر سکتا ہو تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ عدالت کسی قیدی کو یہ حق نہ دے۔
ایک اعتراض یہ کہ نواز شریف تین بار وزیراعظم رہا اور آج تک ایک بھی ایسا ہسپتال نہیں بنا سکا جہاں ان کا علاج ہوسکتا تو حضور عرض یہ ہے کہ وہ کونسا دن ہے جس میں ہم دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی مدد نہیں لیتے؟ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے یہاں بہت کچھ موجود نہیں ہے جو ترقی یافتہ ممالک میں دستیاب ہے، صرف ہسپتال ہی نہیں ہم ہر لحاظ سے بہت پیچھے ہیں صرف ہم ہی نہیں خطے کے دوسرے ممالک کا بھی تقریبا یہی حال ہے۔
نواز شریف نے جب حکومت سنبھالی تو اس وقت ان کے سامنے دہشت گردی لوڈ شیڈنگ اور معیشت جیسے واضح چیلینجز کا سامنا تھا۔ فوج کی مدد سے پہلے ہی سال میں ضرب عضب شروع کیا گیا اور پورے ملک میں بلاتفریق آپریشن سے امن امان بحال ہونے لگا۔ پھر چین کی مدد سے سی پیک کے منصوبے شروع ہونے سے لوڈ شیڈنگ کی صورت حال اور معیشت میں بہتری کی امید پیدا ہوگئی تھی یعنی نواز حکومت نے بہت کامیابی سے ڈیڑھ سال کے اندر اندر میڈیا کے ایک حصے کے انتہائی منفی پروپیگینڈے کے باوجود اپنے بڑے چیلنجز پر قابو پانے کی منصوبہ بندی کر لی تھی جس کی وجہ سے عوام میں بھی بہتری کی ایک امید پیدا ہوگئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ عمران خان اور طاہر القادری کا دھرنا بری طرح فلاپ ہوا اور نواز شریف کو اپنے دور اقتدار میں اپنی کارکردگی کے بارے میں بتانے کو بہت کچھ تھا اسی لیے انہیں کسی سیاسی انتقامی اور نفرت پر مبنی بیانیے کی ضرورت نہیں پڑی۔
جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا تو صورت حال مختلف تھی۔ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل ہو چکا تھا لیکن بلز کی ریکوری میں بہتری کی ضرورت تھی معیشت کے اعشاریے بہتر تھے، سوائے ٹریڈ ڈیفیسٹ کے۔ ملک میں امن امان کی صورت حال 2013 کے مقابلے میں بہتر ہوچکی تھی۔ عمران خان کے لیے بڑے چیلینج ٹریڈ ڈیفیسٹ، بجلی کے کارخانوں کا سرکلر ڈیڈ نقصان میں چلتے، سرکاری اداروں کی بہتری یا نجکاری اور خارجہ امور تھے۔ اب تک ان چیلینجز سے جس طرح نمٹنے کی کوشش کی گئی ہے اس سے عوام کی زندگی پر مہنگائی اور بے روزگاری کی صورت میں بہت منفی اثر پڑ رہا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عمران خان کی حکومت بہتری کی امید بھی پیدا نہیں کر پائی ہے۔ کسی کو کچھ معلوم نہیں کہ یہ مشکل وقت کب تک چلے گا؟ اور پھر کب عوام کو ریلیف ملے گا؟ اس وجہ سے حکومت عوامی حمایت کھوتی جا رہی ہے۔
https://www.youtube.com/watch?v=f5pH4HIyaY0&t=16s
اسی وجہ سے عمران خان آج تک انتقام نفرت اور کرپشن کے بیانیے کو لے کر چل رہے ہیں اور نواز شریف اور زرداری کو چور اور کرپٹ بنا کر پیش کرتے ہیں مزید یہ کہ وہ نواز شریف کی بیرون ملک روانگی میں بھی بانڈ کی غیر قانونی شرط لگا کر عوام کی توجہ اپنی کارکردگی سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اسی دوران نواز شریف کو ہائی کورٹ نے باہر جانے کی جانے کی اجازت دے دی جس میں بانڈ کی شرط ختم کرکے شہباز شریف کو گارنٹر بنایا گیا کہ وہ علاج مکمل ہونے پر نواز شریف کو وطن واپس لانے میں مدد دینگے لیکن حکومت کے پاس چونکہ کارکردگی دکھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے اس لیے اب حکومتی اہلکاروں کی طرف سے یہ کہا جارہا ہے کہ نواز شریف جس ملک بھی جائیں گے، ہم وہاں کی حکومت کو آگاہ کریں گے کہ ہمارا ایک سزا یافتہ قیدی آپ کے ملک میں علاج کی غرض سے کن شرائط پر آرہا ہے۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جس جج نے نواز شریف کو سزا دی وہ ویڈیو اسکینڈل میں متنازع ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے نواز شریف کی سزا کی قانونی حیثیت تو ہائی کورٹ کی نظر ثانی تک برقرار ہے لیکن عوام میں اس فیصلے کی اخلاقی حیثیت ختم ہو چکی ہے، کیونکہ جب فیصلہ لکھنے والا جج ہی متنازع ہو جائے تو اس فیصلے کی اخلاقی حیثیت تو اس وقت ختم ہوجاتی ہے۔ حکومت نواز شریف پر کرپشن کے الزامات تو لگا رہی ہے لیکن نواز شریف پر بنائے گئے کیسز کی حقیقت یہ ہے کہ انہیں نااہل اقامے پر کیا گیا ہے اور استدلال یہ ہے کہ اس اقامے پر درج قابل وصول تنخواہ جو کبھی وصول نہیں کی گئی کو گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا گیا۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا غلطی سے نہیں ہوسکتا کہ ایک انسان اتنی معمولی چیز ظاہر کرنا بھول جائے جبکہ وہ اس اقامے پر درج تنخواہ سے زیادہ قیمتی اثاثے ظاہر کر چکا ہو، تو کیا ایسی صورت میں ملزم کو شک کا فائدہ نہیں ملنا چاہیے تھا ؟ اگر نہیں ملا تو بھی اس فیصلے کے نتیجے میں قومی دولت کو لوٹنا کیسے ثابت ہوتا ہے ؟ اس کے علاوہ باقی کیسز کی حقیقت یہ ہے کہ وہ منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثے کے ہیں۔ منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثے نیب کے قانون کے مطابق کرپشن کی علامت ہو سکتی ہے لیکن یہ بھی اس صورت میں جب کسی کے اثاثے ایسے دور میں بنائے گئے ہوں جب تمام لین دین کمپوٹرائزڈ ہو چکا ہو، اگر آج سے پچاس ساٹھ سال پہلےکے اثاثوں کی چھان پھٹک کی جائے تو آدھے سے زیادہ پاکستانیوں کے اثاثوں کا ریکارڈ نہیں ملے گا۔ اس وجہ سے نواز شریف پر بنائے گئے آمدن سے زائد اثاثوں کے کیسز میں اگر سزا ہو بھی جائے تو وہ اس طرح بھی انہیں کرپٹ قرار نہیں دیا جاسکتا نواز شریف کو کرپٹ ثابت کرنے کے لیے ان کے لگائے گئے بے شمار منصوبوں میں سے کسی منصوبے میں گڑ بڑ اور ہیر پھیر کو ثابت کرکے رقم ریکور کرنا پڑے گی جبکہ حقیقت یہ ہے حکومت کو نواز شریف کے لگائے ہوئے کسی ایک بھی پراجکٹ میں کرپشن نہیں مل رہی کرپشن تو دور حکومت کوئی الزام بھی نہیں لگا سکی جس کو نواز شریف کی اخلاقی جیت قرار دیا جاسکتا ہے۔ میری نظرمیں نواز شریف کو بار بار تضحیک کا نشانہ بنا کر اور کرپٹ ٹھہرا کر حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانا چاہتی ہے اور وہ اپنے حامیوں کو اسی بات تک محدود رکھنا چاہتی ہے چاہے کچھ ہوجائے کپتان ڈٹ گیا ہے اور ان چوروں کو نہیں چھوڑنا۔
https://www.youtube.com/watch?v=HzlUSLdq980
"اب چاہے کچھ ہوجائے" کا مطلب یہ ہے کہ چاہے مہنگائی اور بے روزگاری بڑھتی رہے ملک میں سیاسی عدم استحکام اور حکومتی نااہلی سے معیشت کو جتنا بھی نقصان پہنچ جائے بس عمران خان نے چوروں کو نہیں چھوڑنا چاہے، خارجہ پالیسی ناکام ہو جائے، چاہے کشمیر ہاتھ سے نکل جائے، چاہے چوروں سے ایک روپیہ بھی ریکور نہ ہوسکے، چاہے نواز شریف اور زرداری جیل میں ہی مر جائیں اور ان کے مرنے پر ریاست ان کے قتل کا الزام لے کر مزید کمزور ہو جائے، چاہے حکومت کی حمایت کرنے والے غیر متنازع ادارے متنازع بن جائیں، چاہے ملک ٹوٹ جائے، بس چوروں کو اور کرپٹوں کو کپتان نہیں چھوڑے گا۔ یہ بیانیہ ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ہم سب کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔