طورخم راہداری: نئے امکانات کا سفر

05:31 PM, 18 Nov, 2019

نیا دور
(اسپیشل رپورٹ) صوبہ خیبر پختونخوا، بالخصوص صوبائی دارالحکومت پشاور اور صوبے میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع جنہیں اپنی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے بدامنی اور دہشت گردی کی شدید لہر میں سب سے زیادہ مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا، امن و امان کی بہتر صورتحال اور سیاسی استحکام کے نتیجے میں اسی جغرافیائی پوزیشن کے مثبت ثمرات بھی سامنے آ رہے ہیں انہی ثمرات سے میں سے ایک پاکستان افغانستان کے درمیان طور خم بارڈر پر بڑھتی ہوئی آمدورفت، ٹرانزٹ ٹریڈ، اور باہمی تجارت کا سلسلہ بھی ہے، اس سلسلے میں مزید سہولیات کی فراہمی کیلئے حکومت پاکستان نے طور خم بارڈر کو ہفتے کے سات دن چوبیس گھنٹے کھلا رکھنے کا فیصلہ کیا، جسے نہ صرف عالمی برادری میں بھرپور پذیرائی ملی، اور ستمبر میں منعقد ہونی والی افتتاحی تقریب کو بین الاقو امی میڈیا میں نمایاں کوریج ملی۔

چوبیس گھنٹے اور سات دن کھلا رہنے کے باعث درآمدی اور برآمدی سامان کے ٹرک اور کنٹینرز کی تعداد اور سرحد کے دونوں اطراف لوگوں کی آمدورفت اور بغرض علاج افغانستان سے پاکستان آنے والوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، اس لئے حکومت نے وہاں تعینات مختلف محکموں کے عملے کی تعداد میں بھی اضافہ کیا ہے، جیسے فیڈرل بورڈ آف ریونیونے اپنے عملے کی تعداد پینتالیس سے بڑھا کر تقریباً دگنی یعنی پچاسی کر دی ہے، فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے متعلقہ عملے کی تعداد تین گُنا کرتے ہوئے آٹھ  سے چوبیس کردی ہے، ایف آئی اے کے ساتھ معاونت کیلئے (ڈیٹا انٹری آپریٹر وغیرہ) پراجیکٹ اسٹاف کو ڈپٹی کمشنر خیبر نے 30 سے بڑھا کر پینتالیس 45 کر دیا ہے، اور نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی معاونت کیلئے ڈی سی خیبر نے عملہ (ڈیٹا انٹری آپریٹر وغیرہ) چھ سے بڑھا کر دس کر دیا ہے۔

صوبائی محکمہ خزانہ کی جانب سے ایف آئی اے اور این ایل سی کو درکار سامان کی خریداری کیلئے بالترتیب بیس 20 ملین اور اناسی79  ملین روپے جاری کیے گئے ہیں۔

ماہ ستمبر اور اکتوبر کے اعداد و شمار کے مطابق اس عرصے میں پاکستان افغانستان باہمی تجارت اور افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے (اے پی ٹی ٹی اے) کے تحت درآمدات و برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جبکہ اوقات کار اور عملے کی تعداد میں اضافے سے درآمدی و برآمدی سامان کی جانچ کے عمل میں بھی بالترتیب 25 اور 40 فیصد تک تیزی آئی ہے۔

اسی دوران ماہ ستمبر میں ایک لاکھ چوراسی ہزار تیس افراد افغانستان سے پاکستا ن اور ایک لاکھ سینتالیس ہزار چار سو چوالیس افراد پاکستان سے افغانستان گئے ہیں، جبکہ ماہ اکتوبر میں پاکستان آنے والوں کی تعداد ایک لاکھ پینسٹھ ہزار چھ سو انتالیس جبکہ افغانستان جانے والوں کی تعداد ایک لاکھ بیاسی ہزار آٹھ سو بائیس رہی ہے۔

عوامی آمدورفت اور تجارتی روابط کا یہ سلسلہ جو پاکستان کی تعاون اور بہتر تعلقات کی جستجو کا عکاس ہے، جس کا مظاہرہ طورخم بارڈر پر سہولیات بڑھانے اور کرتارپور راہداری کھول کر کیا گیا ہے۔

طورخم بارڈر کی چوبیس گھنٹے اور ہفتے کے ساتوں دن کھولے جانے کا فیصلہ ا س جامع منصوبہ بندی کا حصّہ ہے جس کے تحت جغرافیائی اور تاریخی اہمیت کے شہر پشاور کو علاقائی تجارت کی اہم گزرگاہ بننا ہے۔ پاکستان افغانستان کے درمیان تجارت گزرگاہ اور عوامی رابطوں کے خیبر پاس معاشی راہداری (خیبر پاس اکنامک کاریڈور یا کے پیک) کا منصوبہ جو کراچی بندر گاہ کو براستہ قومی شاہراہ (این فائیو) پشاور سے ہوتے ہوئے پاکستان افغانستان سرحد یعنی طورخم بارڈر پڑوسی ملک افغانستان اور اس سے ملحقہ وسط ایشیائی ریاستوں، تاجکستان اور ازبکستان سے جوڑ دے گا۔

حال ہی میں چھپنے والی ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ میں خیبر پاس اکنامک راہداری (کے پیک) کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان کو خیبر پاس کے راستے وسطی ایشیا سے ملاتا ہےِ، خیبر پاس کا راستہ سینکڑوں سالوں سے جنوبی اور وسطی ایشیا میں تجارت کے لئے گزرگاہ رہا ہے۔ کے پیک اسی تاریخی گزرگاہ کا احیا ہے، جسے نیشنل ہائی اتھارٹی اور خیبر پختونخوا حکومت نے ڈیزائن کیا تھا۔

یہ منصوبہ سینٹرل ایشیا ریجنل اکنامک کوآپریشن (کاریک) کے تحت بچھائی جانے والی شاہراہوں کے کوریڈور پانچ اور چھ کا حصہ ہے، جو پاکستان کی راہ سے افغانستان ، تاجکستان ، اور ازبکستان کو بحیرہ عرب تک مختصر ترین راستہ فراہم کرے گا۔کے پیک راہداری تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے کو کراچی سے ملاتی ہے، اس منصوبے کے تحت پشاور سے طورخم تک اڑتالیس (۴۸) کلومیٹر طویل چار رویہ ایکسپریس وے تعمیر کیاجائے گا، یہ منصوبہ دوہزار چوبیس تک مکمل کیا جائے گا اور اس پر اخراجات کا تخمینہ تین سو بیس ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔

پشاور سے طورخم موجودہ شاہراہ سے روزانہ نو ہزار ٹرک گزر سکتے ہیں، چونکہ سڑک تنگ ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کی رفتار کافی سست ہوتی ہے، پھر موجودہ سڑک کی توسیع کیلئے زمین کے حصول میں قانونی رکاوٹیں حائل ہیں، خیبر پاس راہداری کی تعمیر سے ٹرکوں کی آمدورفت اس پر منتقل ہونے سے روزانہ تیس ہزار ٹرک گزرنے کی گنجائش پیدا ہوگی۔

جس میں طورخم بارڈر کے چوبیس گھنٹے کھلے رہنے اور مستقبل میں تجارت کی توسیع سے مزید اضافہ ہو گا۔ تجارتی سرگرمیوں میں تیزی سے مقامی سطح پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، صرف ضلع خیبر میں ایک لاکھ تک نوکریاں پیدا ہونے کی توقع ہے۔

طورخم بارڈر کے ہفتے کے ساتوں دن چوبیس گھنٹے کھلا رہنے کے فیصلے کو اس جامع منصوبے کی ایک کڑی سمجھا رہا ہے۔ علاقائی سطح پر تجارت اور تعاون کے فروغ کی خاطر ہی وفاقی حکومت نے حال ہی میں خیبر پختونخوا حکومت کے ساتھ مل کر یہ اقدام کیا، معاشی فوائد سے قطع نظر اس اقدام کا اہم پہلو انسانی ہمدردی کا بھی ہے، چونکہ افعانستان سے آنے والے مریض یہاں دستیاب طبی سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور پشاور کے سرکاری نجّی ہسپتالوں سے بھی علاج کراتے ہیں، پھرسرحد کے دونوں اطراف بٹے ہوئے قبائل اور خاندانوں کیلئےبھی آمدورفت میں آسانی ہے۔

پچھلے برسوں میں امن و امان کی خراب صورتحال ، اور چیکنگ کے عمل کے دوران انتظار سے آمدورفت میں طویل تاخیر کی وجہ سے ٹرانسپورٹرز نے متبادل راستوں کا استعمال شروع کردیا تھا، اب دن رات کھلنے اور سہولیات میں اضافے کی وجہ سے اب ٹرانسپورٹرز دوبارہ اس طرف لوٹ رہے ہیں، زیادہ گاڑیوں کی دستیابی کی وجہ سے کرائے بھی کم ہورہے ہیں، چونکہ سرحد عبور کرنےمیں کم وقت لگتا ہے اور ٹرپ جلد مکمل ہوجاتا ہے، کاروباری طبقے اس تبدیلی پر خوش ہیں کیونکہ کرایوں میں کمی سے کاروباری اخراجات میں کمی آرہی ہے۔

اگرچہ ٹرانسپورٹرز اس صورتحال پرزیادہ خوش نہیں، جیسے افغانستان سامان لے جانے والا ایک ٹرک ڈرائیور گلاب خان شکایت کر رہا تھا کہ اس شاہراہ میں زیادہ گاڑیوں کی وجہ سے کرایہ بہت نیچے آگیا ہے ، اس کے جواب میں کاروباری طبقہ کہتا ہے کہ انتظار میں کم وقت صرف ہونے کی وجہ سے ٹرک ڈرائیورز زیادہ ٹرپس لگا سکیں گے، جس سے ان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا۔پھر چوبیس گھنٹے سرحد کھلنے اور سہولیات میں اضافے سے کارگو کیریئرز کو سفر ترجیحی اوقات کے تعین میں مدد ملی ہے، کیونکہ پھل اور سبزیوں والے ان اشیاء کے خراب ہونے سے بچانے کیلئے دن کے وقت سفر کا انتخاب کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف کوئلہ،سیمنٹ اور اسٹیل وغیرہ کے بھاری بھرکم ٹرک رات کے وقت سفر کرتے ہیں ۔

تیزی سے بدلتے ہوئے علاقائی منظر نامے کے باعث حالیہ مہینوں میں پاکستان کے راستے ٹرانزٹ تجارت میں تیزی آئی ہے۔ رواں سال کے دوران پاکستان کے راستے ٹرانزٹ سرگرمیوں میں 43 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ ایک مثبت علامت ہے. پچھلے چند برسوں میں پاکستان کے اور افغانستان کے مابین دو طرفہ تجارت کافی کم ہوگئی تھی، دونوں فریقین کے مابین تعلقات میں تناؤ کی وجہ سے پچھلے مالی سال میں باہمی تجارت ایک اعشاریہ تین بلین ڈالر پر آگئی تھی، جبکہ چند سال قبل یہ دو بلین ڈالر سے زائد تھی۔

دوہزار پندرہ میں افغانستان پاکستان میں ٹرانزٹ ٹریڈ کا سلسلہ اس وقت رک گیا تھا جب افغانستان گورنمنٹ کے عہدیداروں نے افغان پاکستان ٹریڈ ٹرانزٹ ایگریمنٹ (اے پی ٹی ٹی اے) کو یکطرفہ طورپر ختم کردیا تھا، لیکن امریکہ کی طرف سے ایران پر اقتصادی پابندیوں کے بعد ایرانی بندرگاہوں ( بندر عباس اور چاہ بہار) کے استعمال میں کمی کی وجہ سے افغانستان نے راہداری تجارت سے متعلق پاکستان کے ساتھ دوبارہ بات چیت کا آغازکیا۔

 افغان صدراشرف غنی اپنے ٹیکنیکل ورکنگ گروپ کے ساتھ جولائی میں پاکستان آئے ٹرانزٹ ٹریڈ اورمسئلے پر تبادلہ خیال کیا تھا، جبکہ پاکستان جنوری میں ہی طورخم بارڈر چوبیس گھنٹے کھولنے کا اعلان کرچکا تھا، اور اس کے انتظامات آخری مراحل میں تھے۔

اس اقدام کی شروعات اس سال جنوری میں وزیراعظم عمران خان کی جب انہوں نے طورخم بارڈر 24/7 کھولنے کے احکامات جاری کیے. جس پر خیبرپختونخواہ حکومت نے فوری طور پر عملدرآمد شروع کردیا، اکتیس جنوری کو صوبائی کابینہ نے طورخم بارڈر کھولنے کے فیصلے کی منظوری دی، صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے اس پورے عمل کے بارے میں بتایا کہ اس منصوبے پر کام کرنے کے ، انتظامات کی پیروی کیلئے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی،تمام سٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ لیا گ، متعلقہ محکموں کو ذمہ داریاں سونپی گئیں، جبکہ وفاقی اداروں کو سہولیات میں بہتری کےعمل کو تیز کرنے کے لئے ستّر ملین روپے جاری کیے گئے۔

جولائی کے آخر میں یہ اعلان کیا گیا کہ طورخم بارڈر کی افتتاحی تقریب میں عمران خان کے ساتھ افغان صدر اشرف غنی شرکت کریں گے . پھر افغان انتخابات کے باعث افغان صدر اشرف غنی تقریب میں شریک نہ ہوسکے اور وزیر اعظم عمران خان کے ہمراہ وزیر اعلی خیبرپختون خواہ محمود خان اور ان کی کابینہ کےارکان شریک ہوئے اور ا فغان صوبہ ننگرہار کے گورنر شاہ محمود میاں خیل نے افغانستان کی طرف سے تقریب میں شرکت کی. طورخم سرحد کی افتتاحی تقریب کے ساتھ پاک افغان دوستی ہسپتال کے افتتاح بھی کیا گیا،جس میں علاج معالجے کی غرض سے سفر کرنے والے افغانوں کو طبی معائنے کی سہولیات میسر ہیں۔

تاجر اور کاروباری برادری کی جانب سے فیصلے کا خیر مقدم کی گیا اور اس منصوبے کو غیرروایتی انداز میں تیزی سے مکمل کرنے اور کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کیلئے کیے جانے والے فیصلوں کو سراہا گیا۔

معروف کاروباری شخصیت ضیاء الحق سرحدی نے امید ظاہر کی کہ سرحد کے چوبیس گھنٹے کھولنے کے ساتھ برآمدات کے فروغ کیلئے طویل عرصے سے تعطل کا شکار ازاخیل ڈرائی پورٹ کا دیرینہ مسئلہ بھی حل کردیا جائے تو بہتر ہوگا، اور ساتھ میں صوبے کی سب سےبڑی برآمدات ، جیسے پھلوں اور سبزیوں کیلئے کولڈ سٹوریج کی سہولیات قائم کی جائیں تو بڑی مقدار میں برآمدی اجناس کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے گا۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وفاقی حکومت تمام بر آمدات پر ایکسپورٹ سرچارج (ای ڈی ایس) اکھٹا کرتی ہے، جسے صوبے کی درخواست پر برآمدات کیلئے سہولیات کی فراہمی پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔ اور مزید یہ کہا گیا کہ سرحد پر متعدد ایجنسیوں کی جانب سے جانچ پڑتال نے رکاوٹیں پیدا کیں ہیں، ان معاملات کو زیادہ موثر بنانے اور شفافیت بڑھانے کیلئے راہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے.

وزیر اعلی خیبر پختون خواہ محمود خان نے سرحد کھولنے کی بات کرتے ہوئے کہا، “ طورخم بارڈر کی اپنی ایک شاندار تاریخ ہے لیکن حالیہ اقدامات کے نتیجے میں یہ خیبر پختونخواہ میں تجارت اور معاشی سرگرمیوں کے فروغ کا باعث بنے گا، بالخصوص ضم شدہ اضلاع کاروبار اور روزگار کے نئے مواقع سے مستفید ہوں گے، انہوں نے کہا کہ یہ تو ابھی شروعات ہیں ابھی اور بھی بہت کچھ آنا باقی ہے۔

وزیر خزانہ تیمور جھگڑا نے کہا کہ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن کو اکثر اس کے تزویراتی پہلو کے پس منظر میں دیکھا جاتا ہے، ہم اس جغرافیائی پوزیشن کو ملک اور اپنے صوبے کیلئے معاشی ثمرات کے نقطہ نظر سے دیکھن چاہتے ہیں۔
مزیدخبریں