2016 میں جب غضنفر علی خان گورنر بنے تو کامریڈ باباجان نے جیل سے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ اس دفعہ کامریڈ باباجان کا جیتنا سو فیصد ممکن تھا مگر مسلم لیگ نواز نے گورنر گلگت بلتستان کے بیٹے پرنس سلیم خان کو ٹکٹ دی اور ساتھ ہی کوشش کی کہ باباجان سے مقابلہ کرکے وہ الیکشن جیتے۔ انتخابی عمل کا اعلان ہوا مگر باباجان کی مقبولیت کو دیکھ کر حکمران جماعت نے اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک شخص کے ذریعے سپریم اپلیٹ کورٹ میں درخواست دائر کی، اس درخواست پر اس وقت کے چیف جسٹس رانا شمیم نے اس مسئلہ پر سوموٹو ایکشن لیا۔
باباجان نے اسی اسمبلی کےلیے عام انتخابات میں حصہ لیا تھا اس لیے اس سوموٹو کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ جب چیف جسٹس رانا شمیم کو معلوم ہوا کہ اس درخواست کے ذریعے باباجان کو الیکشن سے باہر کرنا ممکن ہی نہیں تو انہوں نے حکم دیا کہ انتخابات ملتوی کیے جائیں جب تک باباجان کے اصل کیس کا فیصلہ نہیں آتا ہے۔
اس دورانیے میں سپریم اپیلیٹ کورٹ نے کامریڈ باباجان کو انسدادِدہشت گردی کی عدالت سے دی جانے والی سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ سنا دیا۔
16 جون 2016 کو عدالتِ عظمیٰ گلگت بلتستان نے انسداد دہشت گردی کی عدالت سے دی جانے والی سزا کو قانونی قرار دیتے ہوئے سزا برقرار رکھنے کا فیصلہ سنا دیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس رانا شمیم،جسٹس شہباز اور جسٹس جاوید پر مشتمل تین رکنی بنچ نے بدھ کے روز کیس کی سماعت کی اور بابا جان اورکیس میں شریک دیگر ملزمان کی سزائیں برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا۔ اس طرح باباجان کو اس الیکشن سے باہر کر دیا ہے۔
اس فیصلہ کے چند دنوں بعد دوبارہ الیکشن کا شیڈول جاری کیا گیا اور اسi فیصلے کی روشنی میں باباجان کے کاغذات ریٹرننگ آفیسر اور چیف کورٹ گلگت بلتستان نے مسترد کیے کیونکہ باباجان کو 75 سال کی سزا دی گئی تھی۔
سپریم اپلیٹ کورٹ گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم نے جس طریقے اور جن کے کہنے پر کامریڈ باباجان کو الیکشن سے باہر رکھنے کے لیے 75 سال کی سزا دی وہی طریقہ میاں محمد نواز شریف کے لیے بھی استعمال کیا گیا۔
بس فرق یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس رانا شمیم نواز شریف کے ذاتی کلرک تھے جس نے موصوف کو اٹھا کر ہمارے اوپر مسلط کیا اور اب چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی ایک کال کو لے کر نواز شریف کا گواہ بن رہا ہے۔ فرق یہ ہے کہ باباجان ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ نہ کسی کو چیف جسٹس بنا سکتے ہیں جبکہ نہ ہی ان کو سزا دلوانے کے لیے جہاں جہاں، جس جس نے سازشیں کی، وہاں سے کوئی گواہی دے گا۔
سابق چیف جسٹس رانا شمیم نے باباجان اور دیگر چودہ افراد کو 75 سال تک کی سزائیں دینے کے بعد کئی نجی محفلوں میں اعتراف کیا تھا کہ باباجان اور دیگر کے خلاف فیصلے عجلت میں کیے گئے۔ ایک اہم ثبوت یہ بھی ہے کہ انسداد دہشتگری عدالت نے جن نوجوانوں کو باعزت رہا کیا، رانا شمیم نے ان کو بھی سزائیں دے کر جیل بھیج دیا بعد ازاں ان کو رہا کیا گیا۔
اسی بینج میں ایک معزز جج شہباز خان نے کامریڈ باباجان اور دیگر کے حق میں فیصلہ دیا۔ بعد ازاں جسٹس شہباز خان دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا۔
کامریڈ باباجان اور دیگر کو علی آباد ہنزہ میں عوامی دھرنے کے بعد رہا کیا گیا مگر دھرنے کے شرکا اور حکومت کے درمیان جو معاہدہ طے پایا، وہ ابھی تک منظر عام پر نہیں لایا گیا۔
سپریم اپلیٹ کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس سے گزارش ہے کہ کامریڈ باباجان اور دیگر چودہ نوجوانوں کی ریویو پٹیشن کو سماعت کےلیے مقرر کریں تاکہ جس عجلت میں باباجان اور دیگر چودہ نوجوانوں کو سزا دی گئی تھی اس کا ازالہ ہو سکے۔
آخر میں رانا شمیم سے مطالبہ ہے کہ لندن سے یہ بیان بھی جاری کریں کہ باباجان کو الیکشن سے باہر رکھنے اور اس وقت کے گورنر گلگت بلتستان میر غضنفر علی خان کے بیٹے کو جتوانے کےلیے انہوں نے گورنر گلگت بلتستان، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان اور دیگر طاقتوں کے کہنے پر غیر قانونی اور عجلت میں باباجان اور دیگر نوجوانوں کو سزائیں سنائی۔
اب سابق چیف جسٹس سپریم اپلیٹ کورٹ رانا شمیم جرات کرکے یہ بیان بھی ریکارڈ کروائیں، جہاں نواز شریف کے خلاف سازش کا پول کھول دیا، وہاں نواز شریف کی پارٹی کے عہدیداران نے باباجان کے خلاف جو سازش کی وہ بھی بےنقاب کریں۔ بس سوال یہ ہے کہ جسٹس رانا شمیم باباجان کے کیس پر کب سچ بولیں گے؟؟