ایسا کہاں سے لاؤں کہ تُجھ سا کہیں جسے

05:53 PM, 18 Nov, 2021

علیم عثمان
اعلیٰ صحافتی اقدار اور کردار کی علامت شخصیات ایک ایک کرکے رخصت ہوتی جا رہی ہیں۔ صحیح معنوں میں پڑھے لکھے، باوقار اور باکردار ایسے ہی صحافیوں میں سے ایک قدرت اللہ چوہدری تھے جنہیں بجا طور پر قلم مزدوروں کے لئے رول ماڈل کہا جا سکتا ہے۔ انگریزی اور اردو، دونوں زبانوں پر مکمل دسترس رکھنے، اعلیٰ ادبی وقوف اور عمدہ شعری ذوق رکھنے والے مگر زیادہ عرصہ اردو صحافت میں خدمات انجام دینے والے لاہور کے ان زیرک صحافیوں میں سے اعجاز رضوی بھی چلے گئے۔

قدرت اللہ چوہدری بھی، منو بھائی بھی، عباس اطہر بھی، عارف امان بھی اور جواد نظیر بھی جنہیں رول ماڈل کہا جا سکتا تھا۔ صرف نصرت جاوید، شاہد ملک اور اسلم ملک دستیاب ہیں۔

حقیقی معنوں میں پڑھے لکھے صحافی جہاں تک میرے علم میں ہے ماسوائے عباس اطہر اور اسلم ملک کے یہ تمام لوگ جب تک رپورٹنگ میں رہے کمال کے رپورٹر رہے اور جب نیوز ڈیسک پر آئے تو غضب کی سرخی جمانے اور اعلیٰ پائے کا پرچہ تیار کرنے والے صحافی ثابت ہوئے۔

لاہور میں موجود حیات صحافیوں میں البتہ محترم حسین نقی عمر بھر مرحوم نثار عثمانی کی طرح رپورٹنگ تک محدود رہے جس طرح جناب راشد رحمان ایڈیٹنگ تک اور محترم مجیب الرحمٰن شامی، محمود شام اور حسن نثار جرائد کی صحافت تک، اعجاز رضوی اور عباس اطہر تو خود بھی بہت پائے کے شاعر تھے مگر ان کا "پہلا پیار" چونکہ ہمیشہ صحافت رہا اس لئے شاعری کو مساوی توجہ اور وقت بھی نہیں دے پائے۔

بالکل اسی طرح جیسے اردو کے سب ایڈیٹر ہمارے دوست زاہد عباس سید یا بیوروکریسی میں سے اوریا مقبول جان اور شعیب بن عزیز بہت عمدہ شاعر ہونے کے باوجود بطور شاعر کہیں گم ہو کے رہ گئے۔ ہر دور میں کچھ نہ کچھ قدرت اللہ چوہدری موجود رہیں گے، جو پیشہ ورانہ صحافت کے رول ماڈلز میں شامل ہیں۔

اس قدر درویش صفت اور باکردار صحافی تھے کہ تحریص وترغیب کبھی ان کے قریب تک نہیں پھٹک سکی۔ حکومت سے صحافیوں کو بطور رشوت دیئے جانے والے قیمتی رہائشی پلاٹ لینا تو دُور کی بات کبھی سرکاری محکمہ کا کارڈ تک نہیں بنوایا۔ ایک بار جب "مشرق" پشاور کے ایڈیٹر تھے انہیں اے پی این ایس جیسی اخبار مالکان کی کسی تنظیم کی میٹنگ میں چیف ایڈیٹر کی نمائندگی کے لئے ہنگامی طور پر شریک ہونے کی غرض سے فی الفور بذریعہ ہوائی جہاز پہنچنا درکار تھا تو ہنگامی طور پر "ڈی جی پی آر" کا کارڈ بنوانا پڑا۔

پیشہ ورانہ کردار اتنا مضبوط تھا کہ خبر کسی قیمت پر ہاتھ سے نہ جانے دیتے چاہے کوئی ان کا پسندیدہ شخص ہی کیوں نہ "رگڑا" جائے مگر ایڈیٹر قدرت اللہ چوہدری خبر کسی صورت ضائع نہیں کرتے تھے۔

جسٹس راشد عزیز کی بطور چیفس جسٹس لاہور ہائیکورٹ حلف برداری کی تقریب سے نکلتے ہوئے لاہور پولیس کے چیف ذوالفقار چیمہ میرے ہاتھ لگ گئے جن کے بارے ایک روز قبل خبر شائع ہوئی تھی کہ غیر قانونی طور پر سرحد پار کرکے آجانے والے ایک بھارتی شہری کو انہوں نے بارڈر ایریا میں کھیتوں میں لے جا کر گولی مار دی ہے۔ میں اور ذوالفقار چیمہ کافی دیر "ماورائے عدالت" قتل پر بحث میں اُلجھے رہے حالانکہ انہوں نے ایل ایل بی کیا ہوا تھا مگر ایک مخصوص مائنڈ سیٹ اور "ورکنگ سٹائل " کے حامل ہونے کی وجہ سے اپنے اقدام کے دفاع پر بضد تھے۔ ان کی ساری گفتگو میں نے "بائی لائن" سٹوری کی صورت رپورٹ کی تو ایڈیٹر قدرت اللہ چوہدری نے خود اس کی سرخیاں نکال کے فرنٹ پیج پر نمایاں کرکے شائع کردی حالانکہ ذوالفقار چیمہ کو ایک ایماندار پولیس افسر ہونے کی بنا پر چوہدری صاحب پسند کرتے تھے۔

ادبی ذوق کے حامل، زیرک اور نستعلیق ایسے کہ خبروں ، بالخصوص "لیڈ سٹوری" خبروں پر ایسی ایسی کلاسیک سرخیاں جمائیں جو مدتوں یاد رہیں گی۔ ایک رات سرگودھا سے ایک پولیس مقابلے کی خبر آئی جس میں پولیس کی بھاری نفری نے شہر کی ایک پرائیویٹ میڈیکل لیبارٹری پر دھاوا بولا اور اندھا دھند فائرنگ کرکے برسوں سے انتہائی مطلوب دہشت گرد ریاض بسرا کو بالخر ہلاک کر دیا تھا۔

ظاہر ہے اسے اس روز کی لیڈ سٹوری بننا تھا مگر اگلے 24 گھنٹوں میں جب یہ خوفناک انکشاف ہوا کہ "گور پیا کوئی ہور" یعنی پولیس نے محض شکل کی مشابہت پر مبنی غلط فہمی میں کسی بے گناہ باریش جوان کا خون کر دیا ہے تو قدرت اللہ چوہدری نے اگلے روز اسے لیڈ سٹوری بناتے ہوئے شہ سرخی جمائی " بُلّھے شاہ اسی مرنا ناہیں " جیسے کچھ عرصہ بعد جنرل پرویز مشرف کے حکم پر طویل قید کاٹنے کے بعد عدالتی حکم پر جیل سے مخدوم جاوید ہاشمی کی رہائی پر روزنامہ پاکستان میں بینر ہیڈ لائن لگی تھی " چھُٹے اسیر تو بدلا ہُوا زمانہ تھا." یا جسے جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی پر" ؍لیڈ" لگی" عدلیہ کا افتخار بحال"

خبر تجسس سے شروع ہو کر حیرت پر ختم ہونے والے سفر کا نام ہے۔ رپورٹر کا تجسس اس سے کوئی انہونی واقعہ یا غیر معمولی بات دریافت کرواتا ہے اور نیوز ڈیسک اسے مناسب ٹریٹمنٹ دے کر پڑھنے سننے والے کو حیرت سے دوچار کرتا ہے تاہم کوئی سٹوری فائل کرنے والے سے لے کر شائع کرنے والے تک کا کام خبر کے مضمرات کے حوالے سے بہت نازک ہے۔ اس لئے صحافت کا پہلا بنیادی عنصر ذمہ دارانہ رویہ ہے اور ایک مکمل نیوز مین ہونے کے ناطے قدرت اللہ چوہدری اس کی کلاسیک مثال تھے۔

ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ اخبار کے کسی ایک صفحہ کے انچارج ہوں یا گروپ ایڈیٹر، پورے اخبار کی ہر "کاپی" (صفحہ) کی ایک ایک سطر پڑھنے کے بعد پریس کو بھجوانے کے لئے "کاپی" فائنل کرتے تھے۔ کسی بھی اخبار میں کوئی دوسرا ایسا کردار میرے علم میں نہیں ہے۔

طبیعت میں سادگی ایسی کہ گروپ ایڈیٹر ہوتے ہوئے بھی تمام اہم خبریں خود ایڈیٹ کرتے، خود ان کی سرخیاں نکالتے، یہاں تک کہ انہی خود اوپر نیوز روم میں دستی لے جا کر شفٹ انچارج کو تھماتے۔ ہیلپر، پروف ریڈر، سب ایڈیٹر سبھی کردار نبھاتے تھے۔

روزنامہ پاکستان میں ایک بار اہم خبریں دستی نیوز روم تک پہنچانے اوپر آئے، دیکھا کہ سٹی ڈیسک پہ کوئی موجود نہیں اور خبروں کا ڈھیر لگا ہے، جب پتا چلا کہ متعلقہ سب ایڈیٹر آج دفتر ہی نہیں آیا تو خود وہاں بیٹھ گئے اور ساری خبریں بنا کر اٹھے۔

مردم شناس ایسے کہ کون کس درجے کا رپورٹر یا سب ایڈیٹر ہے، خوب پہچانتے تھے اور "بڑے" خبر نویس کی بہت قدر کرتے تھے اور اپنے جیسے دیانت دار اور شفاف کردار کے حامل صحافی کو بہت عزت دیتے تھے۔

خیر خواہ اور ہمدرد ایسے کہ ایک بار جب انہیں پتا چلا کہ میں بے روزگار ہوں تو ایک طرف کسی کے ذریعے فوری پیغام بھجوا کر مجھے دفتر بلوا لیا اور اسی دوران میرے گھر کا نمبر لے کر میری بیوی کو فون کرکے کہا "تم نے اسے، بس گھر میں نہیں بیٹھنے (پڑے رہنے) دینا" اور "پیشہ ورانہ غیرت" کا یہ عالم تھا کہ اپنے پوسٹ گریجویٹ بڑے بیٹے کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی غرض سے ضمیر آفاقی سے کہا کہ وحدت روڈ پر کوئی کرائے کی دکان ڈھونڈے تاکہ صبغت اللہ کو وہاں سٹیشنری کی دکان ڈلوا دیں اور بعد میں جب بیٹا صحافت کا پیشہ اپنا لینے پر مائل ہوا تو روزنامہ پاکستان جیسے صف اول کے قومی اخبار کا گروپ ایڈیٹر ہوتے ہوئے بیٹے کو روزنامہ انصاف جیسے قدرے غیر معروف اخبار میں بھرتی کروا دیا۔

پیشہ ورانہ خود داری اس قدر تھی کہ جب بحریہ ٹاؤن والے ملک ریاض نے اخبار نکالنے کا قصد کیا تو پہلا ایڈیٹر قدرت اللہ چوہدری کو رکھا جنہیں فوری طور پر ایک بڑی نئی کار فراہم کر دی گئی لیکن چوہدری صاحب نے جب دیکھا کہ اخبار نکلنے کے ابھی کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تو چند ماہ بعد ہی یہ کہتے ہوئے ملک ریاض کو گاڑی واپس بھیج دی کہ چونکہ آپ کا اخبار جلد نکلتا نظر نہیں آ رہا اور ادارے کے لئے میرے پوری طرح مصروف ہونے کے ابھی کوئی آثار نہیں ہیں لہذا گاڑی مزید اپنے پاس رکھنا مناسب نہیں ہے۔

ڈھُونڈ کر لاوُں کوئی تُجھ سا کہاں سے آخر
ایک ہی شخص ہے بس تیرا بدل یعنی “ تُو “
مزیدخبریں