اسلام وہ واحد مذہب جس نے غلاموں کے لیے آواز ہی نہیں، تلوار بھی اٹھائی

08:47 PM, 18 Nov, 2022

عاصم علی
ممتاز برطانوی فلسفی برٹرینڈرسل نے ایک دفعہ اپنے ایک لیکچر میں کہا کہ دنیا میں جتنے بھی مذاہب آئے ہیں انہوں نے غلاموں کے حقوق کے لئے جدوجہد کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان مذاہب میں سے اسلام وہ پہلا مذہب تھا جس نے غلاموں کی آزادی اور ان کے حقوق کے لئے صرف آوازہی نہیں اٹھائی بلکہ اس کے لئے مسلح جدوجہد بھی کی۔

اسلام کی ابتدا غلاموں اور معاشرے کے پسے ہوئے افردا کے حقوق اور ان کی آزادی سے ہوئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اسلام اپنے آغاز میں سب سے پہلے غلاموں میں مقبول ہوا اور عام لوگوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے غلام تھے جو عرصہ دراز سے ظلم کی بھٹی میں جل رہے تھے اور اپنی آزادی کے لئے کسی مسیحا کے انتظار میں تھے۔ ان افراد میں بلال ابن رباح، خباب ابن الارت، صہب ابن سنان، أبو فكيهة رضی اللہ عنہمان اور ان کے علاوہ خواتین غلام جنہوں نے اسلام قبول کیا ان میں لبناء، زنیرہ اور النهدية رضی اللہ عنہمان شامل تھی۔ اسلام نے ان غلاموں کے لئے دو محازوں پر جنگ لڑی: ایک اندرونی محاز پر یعنی کہ حجاز میں اور دوسری بیرونی محاز پر جو حجاز سے باہر لڑی گئی۔

حجاز میں خاص طور پر مکہ میں غلامی بہت عام تھی۔ غلاموں کے آقا قریش کے بڑے بڑے سردار تھے جو ان کے اوپر طرح طرح کے مظالم ڈھاتے تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ان غلاموں پر ان کے مالکوں کے مظالم اور سخت ہو گئے۔ اسلام نے اسلام قبول کرنے والے غلاموں کے آقاؤں کو رقم دے کر ان کو آزاد کروایا۔ غلاموں کے اندر اسلام بہت تیزی سے پھیلا۔ جن غلاموں نے اسلام قبول کیا انہوں نے مظالم کو برداشت کیا اور اسلام پہ قائم رہنے کے لئے بہت مزاحمت کی۔ جس کی وجہ سے باقی غلاموں کے حوصلے بلند ہوئے اور وہ تیزی سے اسلام کی طرف مائل ہونے لگے۔

غلاموں کے اندر اس انقلاب کو دیکھ کر قریش کے سرداروں کے اندر تشویش کی لہر دوڑ گئی اور ان کو غلاموں کی بغاوت نے اسلام کے خلاف جارحانہ اقدام اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ اگر اسلام کے ابتدائی دنوں کے حالات کو دیکھا جائے تو قریش مکہ کو اسلام کے جس اقدام اور نظریہ سے سب سے زیادہ مسئلہ تھا وہ غلاموں کی آزادی اور ان کے مساوی حقوق سے تھا کیوں کہ وہ کسی بھی صورت میں اپنے غلاموں کو اپنے ہم پلہ دیکھنے کو تیار نہیں تھے۔

ان کا اسلام کے اوپر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ اسلام غلاموں کو ان کے آقاؤں کے خلاف بغاوت اور سر کشی کرنے کا حوصلہ دے رہا ہے۔ غلاموں کے حقوق کو اوج کمال اس وقت ملا جب محسن انسانیتﷺ نے اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارث رضی اللہ عنہ کو آزاد کر کے اپنا منہ بالا بیٹا بنا لیا۔ صرف یہ ہی نہیں ختمی مرتبتﷺ نے زید کا نکاح اپنی پھوپھی زاد زینب بنت جحش سے کر کے دنیا کے لئے ایک مثال قائم کر دی کہ اسلام غلاموں کے حقوق کے لئے کس حد تک جا سکتا ہے۔ قریش کے اعلیٰ خاندان کی خاتون کا ایک آزاد کردہ غلام کے ساتھ نکاح بہت بڑا معاشرتی انقلاب تھا۔

اسلام جس وقت ظہور پذیر ہوا اس وقت غلاموں کی سب سے بری حالت رومن سلطنت میں تھی۔ غلاموں کی منڈیاں لگنا اور ان کی خرید و فروخت عام معمول تھا۔ غلاموں کی حالت جانوروں سے بھی بدتر تھی۔ غلاموں نے کافی دفعہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف کئی دفعہ بغاوت کی مگر وہ اپنے بنیادی انسانی حقوق حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ مسیحیت جس کے پیغمبر حضرت عیسیٰؑ نے انہی غلاموں اور پسے ہوئے انسانوں کے لئے رومن سلطنت کو للکارا تھا مگر بدقسمتی سے مسیحیت جب رومن سلطنت کا سرکاری مذہب بن گئی تو غلاموں اور مظلوم طبقات کے حقوق کی جنگ کو شدید نقصان پہنچا۔

اسلام کے غلاموں کے ساتھ مثالی سلوک سے روم کے سٹیٹس کو کو شدید خطرات محسوس ہونے لگے کیوں کہ یہ ایک معاشرتی اور سماجی تحریک تھی جو صدیوں سے ظلم و جور کی شہنشاہیت کو ملیا میٹ کر سکتی تھی۔ جب اسلام اندرونی دشمنوں سے نمٹنے میں کامیاب ہو گیا تو روم جیسی بیرونی طاقتوں کو اپنی فکر ہونے لگی لہٰذا انہوں نے اسلام کے خلاف منصوبہ بندی شروع کر دی۔

دوسری طرف اسلام اور اس کے ماننے والوں کی بھی یہی خواہش تھی کہ جتنا جلدی ہو سکے اسلام کا پیغام ان علاقوں میں پہنچنا چاہیے جہاں پر انسانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک ہو رہا تھا۔

اس مقصد کے لئے رسول پاکﷺ نے 8 ہجری میں ایک لشکر تشکیل دیا۔ اس لشکر کا امیرحضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ کو بنایا۔ زید رضی اللہ عنہ کو لشکر کا امیر بنانے میں بہت سارے معنی پنہاں تھے: ایک تو اسلام اور غلاموں کے عرب کے دشمنوں کو پیغام پہنچانا تھا کہ غلام بھی سرداری کے قابل اور اہل ہو سکتے ہیں اور دوسرا مقصد رومی حکومت اور ان کے اندر پسنے والے غلاموں کو پیغام دینا تھا کہ اسلام نے غلاموں کی آزادی اور ان کے حقوق کے لئے عالمگیر تحریک کا آغاز کیا ہے۔ زید رضی اللہ عنہ کی امیری سے رومی غلاموں کو یہ حوصلہ دینا بھی مقصد تھا کہ خدا نے تمام انسانوں کو آزاد پیدا کیا ہے اور کسی انسان یا حکومت کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آزاد انسانوں کو غلام بنائیں۔

جب جنگ موتہ میں حضرت زید رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تو حضور اکرمﷺ نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں پھر سے رومیوں کے خلاف لشکر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ اس لشکر کی سپہ سالاری حضرت زید رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے سپرد کی۔ بہت سے اکابر اور تجربہ کار صحابہ کے ہوتے ہوئے بھی اسامہ کو لشکر کی سرداری دینا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسلام غلاموں کے حقوق کی جنگ میں کس قدر سنجیدہ تھا۔

نبی اکرمﷺ کے وصال کی وجہ سے یہ لشکر ان کی زندگی میں تو روانہ نہ ہو سکا مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں اسامہ کی سپہ سالاری میں یہ لشکر روم سے نبرد آزما ہونے کے لئے روانہ ہوا۔ اسامہ کے لشکر کو فتح نصیب ہوئی اور یہ اسلام کا پہلا لشکر تھا جو رومی سرزمین پر کامیابی سے داخل ہوا۔ اسامہ کی کامیابی نے مسلمانوں کی بعد میں رومیوں سے شام اور مصر حاصل کرنے کے لئے ہونے والی جنگوں کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔

دنیا میں ہر انقلاب، تحریک، نظریہ اور مذہب کا جب موازنہ کرنا ہو تو ایک ایسا معیار ہے جس پر ان کو جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے اور وہ غلاموں اور پسے ہوئے افراد کے لئے آواز اٹھانا ہے۔

اسلام نے ناصرف ایسے طبقات کے لئے آواز اٹھائی بلکہ ان کے لئے تلوار بھی اٹھائی۔ اسلام نے غلاموں کو ہر وہ معاشرتی اور سماجی حق دیا جو اسلام سے پہلے کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ جدید دنیا کے انسانی حقوق کے علمبردار ملکوں میں انیسویں اور بیسویں صدی کے وسط تک غلامی سے آزادی اور بنیادی انسانی حقوق حاصل کرنے کے لئے جنگ لڑی جا رہی تھی جب کہ اسلام نے 14 سو سال پہلے یہ عالمگیر پیغام دیا کہ کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔ اور اس پیغام کو عملی جامہ پہنا کر اس کو سچ ثابت کیا۔

اسلام کی تعلیمات میں انسانی آزادی کے بارے میں ایک تسلسل پایا جاتا ہے جو اسلام کے ہر دور میں زندہ رہا ہے اور اسلام نے اس مشن کی تکمیل کے لئے کبھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ کربلا میں حضرت امام حسینؑ نے اپنے مخلافین سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اگر تم کسی مذہب کے ماننے والے نہیں ہو اور آخرت پہ یقین نہیں بھی رکھتے ہو تو کم از کم آزاد انسان تو رہو۔ امام کے ساتھ جناب جون بن حوی اور جناب وہب کلبی جسیے مسیحی جانثاروں کا ہونا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اسلام کی جنگ ظلم، بربریت اور انسان کی آزادی کے لئے ہے جو کہ مذہب، فرقے، علاقے اور قبیلے سے بلند تر ہے۔ اسی وجہ سے اسلام دنیا کے جس کونے میں گیا وہاں کے پسے ہوئے افراد نے اسلام کے عالمگیر پیغام پر لبیک کہا۔
مزیدخبریں