بلوائیوں نے سپریم کورٹ کے بیرونی جنگلے پر اپنی شلواریں سوکھنے کیلئے لٹکائیں لیکن ہماری عدلیہ نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ پارلیمنٹ کے جنگلے توڑ کر اندر خیمے لگا کر رہائش اختیار کی گئی لیکن منصفین کے ماتھے پر شکن تک نہ آئی۔ ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس کا گھیراؤ کیا گیا لیکن ججز نے آنکھیں بند رکھیں۔
بلوائیوں نے ایس ایس پی عصمت اللہ جونیجو اور دیگر پولیس اہلکاروں پر حملے کر کے انہیں زخمی کیا، لیکن انصاف دینے والوں کے کانوں پر جوں نہ رینگی۔ ڈی چوک پر قبریں کھودی گئیں لوگوں کو کفن دکھائے گئے لیکن مجال ہے جو آئین و قانون کے محافظوں پر کوئی اثر ہوا ہو۔ آخر میں پی ٹی وی پر حملہ کر کے اسے فتح کیا گیا اور اس کی آڈیو ریکارڈنگ بھی منظر عام پر آئی۔ لیکن، یہاں بھی انصاف کے علمبرداروں کو کہیں بھی آئین و قانون کی خلاف ورزی نظر نہیں آئی۔
ہمارے موجودہ سلیکٹڈ وزیراعظم نے بجلی کے بل جلائے اور لوگوں کو ترغیب دی کہ آئندہ بجلی کے بل نہ ادا کئے جائیں۔ کسی قسم کا ٹیکس نہ دینے کی تلقین کی گئی یہاں تک کہ بنک کے بجائے ہنڈی کے ذریعہ کاروبار کرنے پر زور دیا لیکن ہماری عدلیہ خواب خرگوش سے نہ جاگی۔ کیا یہ اعلانات آئین پاکستان سے بغاوت نہیں تھے؟ اعلیٰ عدلیہ کیوں اس سارے عرصہ میں عضو معطل بنی رہی۔ اس کی وجوہات جاننے کیلئے اعلیٰ عدلیہ کے ججز سے بہتر کون ہو سکتا ہے۔
الف: اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق سینیئر جسٹس شوکت صدیقی راولپنڈی بار سے اپنے خطاب میں کہتے ہیں کہ آج کے دور میں آئی ایس آئی جوڈیشل سسٹم میں پوری طرح مینوپولیٹ کرنے میں انوالو ہے، آئی ایس آئی کے لوگ مختلف جگہ پہنچ کر اپنی مرضی کے بنچ بنواتے ہیں، کیسوں کی مارکنگ ہوتی ہے، میں اپنی ہائیکورٹ کی بات کرتا ہوں، آئی ایس آئی والوں نے میرے چیف جسٹس کو اپروچ کر کے کہا کہ ہم نے الیکشن تک نواز شریف اور اسکی بیٹی کو باہر نہیں آنے دینا، شوکت عزیز صدیقی کو بینچ میں مت شامل کرو۔
ب: فیض آباد دھرنے کے بارے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جو فیصلہ لکھا اس میں اسٹیبلشمنٹ پر براہ راست دھرنے میں ملوث ہونے کا ذکر کیا گیا اور متعلقہ ادارے کو ان افسران کے خلاف کارروائی کا کہا گیا۔ کیا یہ توہین عدالت نہیں کہ جس افسر نے بلوائیوں میں پیسے بانٹے اسے آئی ایس آئی کا چیف بنا دیا گیا۔
ج: حال ہی میں جس ویڈیو کا چرچا زبان زد عام ہوا اس میں جسٹس ارشد ملک نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے کے بارے میں جن لوگوں کے دباؤ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔
د: جسٹس نسیم حسن شاہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے والے بنچ کا حصہ تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ مارشل لا کا اتنا دباؤ تھا کہ ہم کچھ نہ کر سکے اور ایک بے گناہ کو پھانسی کی سزا سنا دی۔
ہ: جمہوریت کے خلاف پہلا فیصلہ دینے والے جسٹس منیر کا کہنا تھا کہ جج بندوق سے نہیں لڑ سکتا اس لئے اگر فوجی کارروائی کامیاب ہو جائے تو اسے بغاوت نہیں انقلاب کہنا چاہیے۔
وہ دن ہے اور آج کا دن عدلیہ نے اسٹیبلشمنٹ کے ماتحت ادارے کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ نہیں کہ عدلیہ کو نڈر اور بے باک ججز نہیں ملے لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ اب ذرا دوبارہ اعلیٰ عدلیہ کے پانچ ججز کے مندرجہ بالا ریمارکس کو پڑھیں تو یہ حقیقت آپ کے سامنے آ جائے گی کہ ہماری اعلیٰ عدالتیں کس کے کہنے پر فیصلہ تحریر کرتی ہیں۔
ہیں نئی روش کی عدالتیں اور نرالے ہی ڈھب کے ہیں فیصلے
نہ نظیر ہے، نہ دلیل ہے، نہ اپیل ہے، نہ وکیل ہے