انٹر بینک میں ایک روپے 82 پیسے مہنگا ہونے کے بعد ڈالر کی قیمت 173 روپے تک پہنچ گئی ہے جو پاکستان کی تاریخ میں ڈالر کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی کی بنیادی وجہ ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارا ہے اور اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی جانب سے روپے کی قدر مزید کم کرنے کا مطالبہ بھی ہے جس سے نا صرف ڈالر کی قیمت مزید بڑھے کا خدشہ ہے بلکہ اس سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہو گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر خام تیل سمیت دیگر اہم کموڈٹیز کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے پاکستان کے نہ صرف درآمدی بل کے حجم میں نمایاں اضافے کے خطرات ہیں بلکہ مہنگائی کی شرح میں بھی اضافے کے خدشات ہیں جس سے انٹربینک مارکیٹ میں درآمدی ضروریات کے لیے ڈالر کی طلب بڑھتی جارہی ہے اور ڈالر کی قدر سنبھل نہیں پارہی۔
دوسری جانب اسٹیٹ بینک کے نئے اقدامات اور ایکس چینج کمپنیوں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجے میں اوپن مارکیٹ سے افغانستان کو ڈالر کی اسمگلنگ پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے لیکن اس کریک ڈاؤن کے مطلوبہ اثرات انٹربینک مارکیٹ میں نظر نہیں آرہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان طویل دورانییے سے جاری مذاکرات میں تاحال قرض پروگرام کی بحالی سے متعلق کوئی واضح اشارہ سامنے نہیں آرہا ہے، یہی وجہ ہے کہ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی اڑان بے لگام ہوتی جارہی ہے۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ملک میں مہنگائی اور معاشی صورت حال کے حوالے سے اجلاس بھی طلب کر لیا ہے۔