جب آپ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے تو آپ ٹیم کے معاملات میں سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ آپ کے ہوتے ہوئے کوچ، ٹیم مینجر حتی کہ چیئرمین کرکٹ بورڈ کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہوتی تھی۔ 1987 کا ورلڈکپ ہارنے کے بعد آپ نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو اس وقت کے فوجی صدر ضیاء الحق نے آپ سے ذاتی طور پر درخواست کی کہ آپ دوبارہ کرکٹ ٹیم کے کپتان بنیں۔ بلاشبہ ایک کھلاڑی کی زندگی میں یہ اوج کمال ہے کہ ملک کا سربراہ اس کو ٹیم کا کپتان بننے کے لیے درخواست کرے۔ اس حقیقت سے پورے پاکستان کو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آپ نے پاکستان کو 1992 میں کرکٹ کا عالمی چیمپئن بنوا کر قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ اس کی وجہ سے پوری قوم آپ کی احسان مند تھی اور آج بھی ہے۔ آپ کو پورے پاکستان میں بہت عزت اور پیار ملا۔ لوگوں نے اپنے بچوں کے نام آپ کے نام پر رکھنے شروع کر دیے۔
جب آپ نے اپنی والدہ کے نام پر کینسر ہسپتال بنانے کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم چلائی تو آپ کے بقول پاکستانی قوم نے اپنی فراخ دل سے آپ کو بھی حیران کر دیا۔ خواتین نے اپنے زیور تک آپ کو دے دیے۔ آپ کینسر ہسپتال بنانے میں کامیاب ہوئے۔ آپ نے اپنی مرضی کے مطابق اور پاکستانی عوام کی اکثریت کی مرضی کے خلاف غیر مسلم خاتون سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا تو پاکستان کے عوام نے آپ کے اس منفرد فیصلے کو بھی خوشی سے قبول کر لیا۔ آپ کی بیوی جمائما گولڈ سمتھ کو بھی مذہبی اور معاشرتی انفرادیت کے باوجود اپنا لیا۔ حالانکہ پاکستانی معاشرہ اپنی قدامت پسندی کی وجہ سے کبھی بھی اس طرح کے آزادانہ اور لبرل فیصلوں کو قبول نہیں کرتا۔ یہ فیصلہ عمران خان کا تھا، اس لیے پاکستان نے اپنے مزاج کے برعکس اسے بھی من و عن تسلیم کر لیا۔ مسلم لیگ (ن) نے جب سیاسی مقاصد کے لیے جمائما کے خلاف پراپیگنڈا مہم چلائی تو پوری قوم نے آپ کا ساتھ دیا۔ اسی طرح جب 1997 میں سیتا وائٹ کیس کو میڈیا پر اچھالا گیا تاکہ آپ کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچایا جائے تو اس وقت بھی پاکستان کے عوام نے آپ کا اتنا ساتھ دیا کہ گویا آپ کو معاف ہی کر دیا۔ پاکستانی معاشرے کو سمجھنے والے طالب علم کے لیے یہ بات حیران کن ہے کہ پاکستان کے عوام میں اتنی وسعت قلبی کہاں سے آ گئی؟
آپ نے 1996 میں سیاسی سفر کا آغاز کرتے ہوئے نئی پارٹی بنانے کا اعلان کیا تو پاکستان کے عوام نے حسب معمول آپ کے اس فیصلے کا بھی خیرمقدم کیا اور آپ کی سیاست میں آمد کو پاکستان کے لیے خوش آئند قرار دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کو سیاست کے ابتدائی سالوں میں خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی کیونکہ لوگوں کے دلوں میں اور ووٹرز کے دلوں میں جگہ بنانے میں فرق ہوتا ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے عوام کی کثیر تعداد آپ کو سیاست میں کامیاب دیکھنا چاہتی تھی۔
2013 کے عام انتخابات میں آپ کی پارٹی کو تقریباً 7.7 ملین ووٹ ملے جو کہ حکومتی پارٹی مسلم لیگ (ن) کے بعد کسی بھی پارٹی کو سب سے زیادہ پڑنے والا ووٹ تھا۔ گو آپ مرکز میں حکومت بنانے میں ناکام رہے مگر خیبر پختونخوا میں آپ کی پارٹی حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ آپ کے پاس مرکز میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا مینڈیٹ تھا مگر آپ نے پارلیمنٹ کو یکسر نظر انداز کیا جو کہ غیر منصفانہ تھا مگر عوام کو آپ کی یہ ادا بھی پسند آئی اور آپ کے فیصلے کو قبول کیا گیا۔ آپ پر قومی اسمبلی کے 32 حلقوں کے ووٹرز کا استحقاق تھا کہ آپ قومی اسمبلی میں جا کر ان کے مسائل کو اجاگر کرتے اور ملکی مفاد کے لیے قانون سازی کرتے مگر آپ نے اس کے برعکس پارلیمنٹ کا مکمل بائیکاٹ جاری رکھا۔ عوام نے اس غیر جمہوری رویے پر بھی آپ کا ساتھ دیا۔
آپ مخالف پارٹی کی حکومت کو برداشت نہ کر سکے اور حکومت حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرنے پر تل گئے۔ آپ نے ایک جمہوری اور منتخب حکومت کے خلاف احتجاج کے لیے آواز اٹھائی تو قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہو گئی۔ اگرچہ عوام کو اس بات کا ضرور ادراک تھا کہ اس طرح کے خطرناک اقدامات سے پاکستان کو سیاسی اور معاشی نقصان ہو سکتا ہے مگر عوام نے لانگ مارچ اور دھرنوں میں بھی آپ کا ساتھ دیا۔ آپ نے 126 دن تک اپنے دھرنوں کی وجہ سے ملک کے انتظامی اور معاشی نظام کو مفلوج بنائے رکھا۔ امپائر کی انگلی اٹھنے کا انتظار کرنے سے لے کر پارلیمنٹ پر حملے جیسے ناقابل معافی جرائم کے باوجود عوام نے آپ کا ساتھ دیا۔ ایک منتخب حکومت کے خلاف غیر جمہوری طاقتوں سے مل کر ساز باز کرنے کے باوجود آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ جاوید ہاشمی جیسے معتبر سیاستدان کی آہ و بکا کو بھی عوام نے یکسر نظر انداز کر دیا۔ جیسے جیسے آپ کے عزائم بلند ہوتے گئے، ویسے ویسے پاکستان کے عوام کی وسعت قلبی بھی بڑھتی گئی۔ آپ نے ایک چلتی ہوئی منتخب حکومت کو گرانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ عوام نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ کے اس سیاسی ایڈونچر سے ملک کو ناقابل تلافی معاشی و سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے، آپ کا ساتھ دیا۔
جب آپ کی سابق بیوی ریحام خان نے آپ سے طلاق لینے کے بعد کتاب لکھی تو انہوں نے آپ کی ذات اور کردار پر سنگین ترین الزامات لگائے۔ پاکستان میں عام رواج یہی ہے کہ لوگ زیادہ تر سازشی نظریات پر یقین کر لیتے ہیں اور افواہوں کو سچ مان لیتے ہیں مگر آپ کے لیے قوم نے اپنی عادت ہی بدل ڈالی۔ عوام نے ریحام خان کی باتوں پر یقین کرنے کی بجائے ریحام خان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ بلاشبہ پاکستان کے عوام کی اس قدر وسعت قلبی صرف آپ ہی کو نصیب ہوئی۔
آپ نے سیاست میں کامیابی کے لیے روحانی اور مافوق الفطرت طاقتوں کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا تو بیش تر سیاسی حلقوں کی جانب سے آپ کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ جب اس بات کا انکشاف ہوا کہ آپ کو روحانی مدد فراہم کرنے والی کوئی خاتون ہے تو حالات آپ کے لیے اور بھی مشکل ہو گئے۔ مگر عوام نے آپ کے مخالفین کی باتوں پر یقین نہ کرتے ہوئے حسب معمول آپ ہی کا ساتھ دیا۔ پھر جب آپ نے روحانی پیشوا سے شادی کرنے کا معاشرتی حساب سے معیوب اور منفرد فیصلہ کیا تو بھی عوام نے آپ کا ساتھ دیا۔ اس بار بھی پاکستان کے عوام نے اپنی فطرت اور کلچر کے خلاف جاتے ہوئے آپ کے فیصلے کو قبول کیا۔ ایک روحانی شخصیت 'جن کے بچے ہیں اور جن کے بچوں کے بھی بچے ہوں اور ان کی کامیاب ازدواجی زندگی ہو' کو طلاق دلوا کر ان سے اتنی عجلت میں شادی کرنا خاصا غیر روایتی اور غیر مقبول فیصلہ دکھائی دیتا ہے مگر فراخ دل عوام نے اس فیصلے کو بھی قبول کر لیا۔
پھر جب آپ کو اس بات کا اندازہ ہوا کہ غیر سیاسی قوتوں کی مدد کے بغیر آپ وزیراعظم نہیں بن سکتے تو آپ نے ان کی جانب رغبت اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ عوام نے پھر بھی آپ کا ساتھ دیا۔ پاکستان میں سیاست دانوں کا ایک جتھہ ایسا ہے جو ہمیشہ سے 'امپائر کی انگلی' کو دیکھ کر اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے۔ شیخ رشید اس جتھے کے نمایاں رکن ہیں۔ اس گروپ کی سمت کا اندازہ شیخ رشید کو دیکھ کر لگایا جاتا ہے۔ 13 اکتوبر 2022 کو شیخ رشید نے اے آر وائے ٹی وی کے پروگرام میں اینکر وسیم بادامی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ڈپریشن میں چلے گئے ہیں، ان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کریں۔ شیخ صاحب درست فرما رہے ہیں۔ جب سمت کا پتہ نہ چل رہا ہو تو انسان ڈپریشن میں چلا جاتا ہے اور اس بار شیخ صاحب کو وہ انگلی نطر نہیں آرہی جس کو دیکھ کے وہ اپنی سمت کا تعین کرتے تھے۔ اس طرح کے سیاسی مفاد پرستوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنے پر اور ان کو اہم وزارتوں پر بٹھانے کے باوجود عوام نے آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
اسی طرح 2018 کے عام انتخابات میں پاکستان کے عوام نے تبدیلی اور روایتی سیاست کے خاتمے کے لیے آپ کو جوش و خروش سے ووٹ دیا جس کے نتیجے میں آپ پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ مرکز کے علاوہ آپ کے پاس پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتیں بھی تھیں۔ آپ کے پاس ملک اور قوم کی قسمت کو بدلنے کا ایک سنہری موقع تھا مگر حکومت میں آتے ہی آپ نے مخالف سیاسی پارٹیوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں میں خود کو الجھا لیا جس سے آپ کی ترجیہات بدل گئیں۔ مگر عوام پھر بھی آپ کے ساتھ کھڑے رہے۔ پنجاب میں عثمان بزدار جیسے 'وزیراعلی نما' کو وزیراعلی لگا دیا حالانکہ آپ کو پتہ تھا کہ عوام کی اکثریت آپ کے اس فیصلے کے خلاف ہے اور آپ کو اس بات کا بھی بخوبی علم تھا کہ پنجاب جیسے صوبے کو چلانا بزدار کے بس کا روگ نہیں ہے مگر آپ پھر بھی اپنے اس غلط فیصلے پر اڑے رہے۔ آپ کی اس غیر منطقی بات کو بھی عوام نے مان لیا کہ 'اگر وسیم اکرم میرے نیچے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے تو عثمان بزدار کیوں نہیں کر سکتا'۔ عوام نے اس توجیح کو بھی مان لیا مگر یہ کامن سینس کی بات ہے کہ کرکٹ ٹیم کے 11 کھلاڑیوں کو چلانا اور ایک صوبے اور ملک کو چلانا دو بہت ہی مختلف معاملے ہیں۔ پنجاب میں گورننس اور کارکردگی کی خراب صورت حال کے باوجود عوام نے آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
آپ وزیراعظم بننے کے بعد حکومت کو چند نام نہاد حواریوں اور چاپلوسوں کے حوالے کر کے تسبیح پکڑ کے 'حلال' وزیراعظم بن کر روحانیت کی کرسی پر بیٹھ گئے۔ ملک میں معاشی بحران پیدا ہوتا گیا۔ مہنگائی اور بے روزگاری دن بدن بڑھتی چلی گئی اور آپ بار بار وزیر خزانہ بدلتے چلے گئے۔ عوام نے اس کے باوجود آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا حالانکہ آپ کی حکومت کی کارکردگی کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں۔ جیسا کہ ناصر کاظمی نے کہا تھا:
؎ دیکھ کے تیرے بدلے تیور
میں تو اسی دن رو بیٹھا تھا
اپریل 2022 میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں آپ کی حکومت چلی گئی۔ آپ نے جاتے جاتے پاکستان کے آئین پر خطرناک حملے کیے اور ایسی صورت حال پیدا کی کہ جس سے پاکستان شدید آئینی بحران کا شکار ہو سکتا تھا۔ مانا کہ پاکستان کا آئین آئیڈیل نہیں ہوگا اس میں خامیاں ہوں گے مگر اس کو بنانے میں اس نوزائیدہ قوم کو 26 سال لگ گئے اور آدھے سے زیادہ ملک کی قربانی دینا پڑی۔ حکومت کے جانے کے بعد آپ کے مخالفین یہ سمجھ رہے تھے کہ آپ کی حکومت کی تقریباً ساڑھے 3 سال کی غیر تسلی بخش کارکردگی کی وجہ سے اب عوام آپ سے شدید مایوس ہو چکے ہیں اور اب آپ کے لیے سیاست میں دوبارہ قدم جمانا مشکل ہو گا۔ اس کے برعکس عوام نے روایتی معصومیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک بار پھر آپ کی ہر بات کا یقین کر لیا۔ آپ نے اپنی حکومت جانے کا سارا ملبہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور مبہم امریکی دخل اندازی پر ڈال دیا۔ عوام نے من و عن تسلیم کر لیا اور آپ کو پہلے سے بھی زیادہ مقبول بنا دیا۔ پاکستان کی اسٹییبلشمنٹ کا آپ کی حکومت گرانے کے کردار پہ تو غالب یاد آرہے ہیں:
؎ جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا
جولائی 2022 کے ضمنی انتخابات میں عوام نے آپ کی پارٹی کو واضح برتری سے جتوا کر آپ کو بھی حیران کر دیا۔ آپ کی غلطیاں کرنے کی عادت نہیں گئی اور عوام کی آپ کو معاف کرنے کی عادت نہیں گئی۔ 16 اکتوبر 2022 کے ضمنی انتخابات میں ایک بار پھر عوام نے آپ کو 7 میں سے 6 سیٹوں پر کامیاب کروایا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ آپ قومی اسمبلی کی صرف ایک ہی نشست اپنے پاس رکھ سکتے ہیں جو پہلے سے آپ کے پاس ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کی جیتی ہوئی نشستیں جب خالی ہوں گی تو ان پر پھر سے الیکشن ہوں گے۔ معصوم اور مقروض قوم کے پیسے کے ضیاع کی خیر ہے آپ کا شغل سلامت رہے بس۔ عوام آپ کو پھر سے معاف کر دے گی۔
آپ کو مسلسل معاف کرتے رہنے والے عوام اب خوف زدہ ہو گئے ہیں اور آپ کی مسیحائی اور راتوں رات تبدیلی کے دعوے سن سن کر تھک بھی گئے ہیں۔ گزشتہ ایک عشرے سے لانگ مارچ، دھرنوں اور آئے روز کے بدلتے بیانیوں سے وہ تھک گئے ہیں۔ خوف زدہ اس لیے ہو گئے ہیں کہ آپ سے وابستگی کے بت کو توڑنے میں خوف محسوس کرتے ہیں۔ عوام کے دل کے کسی کونے میں اب ایک صدا ایسی بھی موجود ہے جسے وہ زبان پر نہیں لا رہے اور وہ صدا ہے: 'عمران خان اب بس کر دو'۔ کیا آپ اس عوام کی صدا پر کان نہیں دھریں گے جس نے ہمیشہ آپ کا ساتھ دیا اور آپ کی ہر خامی اور غلطی پر چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے کبھی آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا؟ احمد فراز نے کہا تھا:
ہم کہ منت کشِ صیاد نہیں ہونے کے
وہ جو چاہے بھی تو آزاد نہیں ہونے کے
دیکھ آ کر کبھی ان کو بھی جو تیرے ہاتھوں
ایسے اجڑے ہیں کہ آباد نہیں ہونے کے