موہن جوداڑو تہذیب کا گہوارہ، ہتھیار کا نہیں

07:08 AM, 18 Sep, 2019

جاوید بلوچ
تشدد برائے تشدد، گالی کے بعد گالی اور برائی کا جواب برائی بغیر منطق، بغیر دلیل اور بالکل ہی غیر انسانی، جاہلانہ اور اشرف المخلوقات کہے جانے والے انسان کے لیے ایک دبّہ اور توہین آمیز عمل ہے۔انسان ہونا ہر مذہب میں ایک اعزاز ہے کیونکہ بنانے والے نے اپنی کسی بھی اور مخلوق میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھی۔ مگر، انسان کو یہ شرف حاصل ہے۔

انسان ایک فرد کی صورت میں لیڈر، ذمہ دار شہری اور اجتماعی صورت میں ایک معاشرہ اور قوم بنتی ہے۔ جس کے صدیوں سال گزرنے کے بعد بھی اگر آثار مل جائیں تو اسے تہذیب کا نام دیا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک تہذیب برصغیر پاک و ہند کا ورثہ سندھ کی دھرتی ہے۔ جسے انسانی تاریخ میں معاشرے کے قیام کا بانی تہذیب ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس تہذیب کو موہن جوداڑو کی تہذیب کہتے ہیں۔

موہن جوداڑو کو جہاں یہ شرف حاصل ہے کہ اس دنیا میں انسانوں نے جب معاشرہ کی تشکیل کی اور تہذیب یافتہ اشرف المخلوقات ہونے کے آثار زمین کے سینے میں محفوظ کیے۔ وہیں یہ وہ اصل تہذیب نکلی جہاں ہتھیار کے آثار نہ نکل سکے۔ یعنی موہن جوداڑو کی ہزاروں سال قدیم تہذیب ناصرف انسانی تاریخ میں ایک ابتدائی تہذیب ہے بلکہ ایک پُرامن ابتدائی تہذیب ہے۔

مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ آج کی اکیسویں صدی میں اس تہذیب کے وارث اور اس دھرتی کی پہچان کیا بنی ہوئی ہے؟

صرف پچھلے چند سالوں کی خبروں کو اکھٹا کریں تو جبری طور پر مذہب کی تبدیلی، اقلیتوں میں احساس بے دخلی، فرقہ واریت، تشدد کے واقعات، لسانی فسادات وغیرہ جیسے پُرتشدد، عدم برداشت پر مبنی اور غیر تہذیب یافتہ واقعات کی لمبی لمبی داستانیں دل و دماغ پر چھا جاتی ہیں۔ جو ناصرف موہن جوداڑو کی تہذیب کو داغدار کرتی ہیں۔ بلکہ، یہاں کی رواداری اور جذبہ اپنائیت کو بھی کھا جاتی ہیں۔

جب تقسیم ہندوستان کے وقت کونے کونے میں مذہب کے نام پر انسانوں کا قتل عام ہو رہا تھا۔ ریل گاڑیاں انسانی کٹے ہوئے لاشوں سے بھر بھر کر چلائی جا رہی تھیں، تب بھی تھرپارکر کا ہندو ایک نئی اسلامی مملکت کا حصہ بن رہا تھا اور اسے اس بات کا ذرہ برابر بھی خدشہ و خوف نہیں تھا کہ نئی مملکت میں بسنے والے زیادہ لوگوں کا تعلق اس کے مذہب سے نہیں ہے۔ بلکہ، نئی سرحد کے اُس پار سے آنے والے بے سروسامان مظلوم انسانوں کو اس دھرتی نے اپنی آغوش میں جگہ دی۔ یہ سوچے بغیر کے ان کا کلچر کیا ہے؟ اور یہ کون سی زبان بولتے ہیں؟ جب ہر طرف فسادات کا بازار گرم تھا، تو یہاں مندروں میں پوجا اور مساجد میں عبادات ہو رہی تھیں۔ سوائے چند واقعات کے، وہ بھی کراچی شہر میں۔

اب افسوس کہ اس دھرتی کی پہچان سیاسی افسر شاہی اور ان کے اندھ وشواس جیالے، قبائلی وڈیرے، قرآن کے ساتھ لڑکیوں کی شادی جیسی خود ساختہ رسومات، توہین مذہب کے نام پر کسی بھی مشتعل ہجوم کا حملہ، لسانی جنگ، وڈیرہ و پیر پرستی اور غیرت کے نام پر قتل، بن چکی ہیں۔

ایک روز قبل کا واقعہ ہے کہ ایک طالبعلم نے اپنے استاد پر توہین مذہب کا الزام لگایا پھر کیا ہونا تھا کہ ایمان کے جذبے سے سرشار ایک بھیڑ جمع ہو گئی اور اس ملزم کو سبق سکھانے کے لیے مندر پر داھاوا بول دیا گیا، تھوڑ پھوڑ کی گئی، نعرے بازی ہوئی اور ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اکیسویں صدی کی سندھی تہذیب کا ایک نیا چہرہ دکھایا گیا۔ جسے کئی صدیوں بعد ایک اور تہذیب بننا ہے۔

شاید مقصد یہ ہے کہ جو کام اور آثارات ہزاروں سال پرانی موہن جوداڑو کی تہذیب سے نہیں ملے۔ جو دھرتی تقسیم ہند کے وقت فسادات نہیں دیکھا سکی۔ اس کی نئی تہذیب ایسی ہو کہ اس میں یہ سب ملے۔

مگر، موہن جوداڑو کی تہذیب کے امین وارثوں نے دوسرے ہی دن گھوٹکی شہر میں سفید جھنڈے اٹھا کر پر امن مارچ کیا اور اس بھیڑ کو یہ پیغام دیا کہ سندھ آج بھی موہن جوداڑو کی تہذیب کی دھرتی ہے۔ نا کہ مذہبی فسادات، لسانی تفرقہ اور جھوٹی روایات کی۔ کامریڈ جالب نے تو کہا تھا کہ 'جاگ میرے پنجاب' مگر اولیاء کی دھرتی کے پُرامن اشرف المخلوقات نے جاگتے ہوئے تشدد کو پسپا کر دیا۔ سول سوسائٹی نے اس تھوڑ پھوڑ کے عمل کی مذمت کی اور علما کرام نے شرپسند ہجوم سے کسی بھی قسم کے تعلق سے انکار کر دیا۔

یقین مانیے اس عمل نے موہن جوداڑو کی تہذیب اور سندھ دھرتی پر بہنے والی دریائے سندھ سے جڑی زندگی اور ثقافت کی لاج رکھ دی۔
مزیدخبریں