اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں الحاق پاکستان مخالف تنظیموں نے عوام کے جذبات کو اس شدت سے ابھارا کہ بیشتر علاقوں میں لوگ لائن آف کنٹرول کی طرف مارچ کرنے پر آمادہ ہو گے۔ جس سے آزادکشمیر میں امن و امان کو شدید حد تک نقصان پہنچا۔ تتہ پانی، تیتری نوٹ، کھوئی رٹہ، چڑھوئی سیکٹرز کی طرف مارچ کے اعلانات ہونے کے باعث چند جذباتی نوجوان نہتے سیز فائر لائن کی طرف مارچ کے لیے چل پڑے۔ جنہیں بیشتر مقامات پر پولیس نے روکنے کی کوشش کی۔
لوگوں کا دعوی تھا کہ سیز فائر لائن کو عبور کر کے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی مدد کی جائے گی۔ مگر، آزاد کشمیر پولیس کا بیانیہ یکسر مختلف تھا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ کچھ شریر گروہ عوام میں ہیجانی صورت حال پیدا کر کہ افرا تفری کے اس ماحول سے سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پولیس کا کام ہے کہ وہ عوام کے جان و مال کی حفاظت کرے جبکہ لوگوں کو ورغلانے والی کچھ ناعاقبت اندیش قوتیں انہیں افراد کو استعمال کر کے ملک کو کسی بڑے سانحے کی طرف دھکیل سکتی ہیں۔ اگست کے آغاز سے ہی پولیس اور ایل و سی کی طرف مارچ کرنے والوں کے درمیان آنکھ مچولی شروع ہو گئی تھی۔ ہجیرہ، چڑھوئی، سیری اور تیتری نوٹ کی طرف بڑھنے والے متحرک گروہوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور ڈنڈے برسائے جس کے باعث دس سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ کئی مقامات پر مظاہرین اور عوام کو بھی شدید نقصان پہنچا۔
اگر دیکھا جائے تو پولیس اس معاملے میں حق پر ہے کہ کسی طور بھی کسی گروہ کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اپنے تئیں قانون کو ہاتھ میں لے۔ لہذا پولیس کسی بھی غیر قانونی اقدام کو روکنے کی بھر پور کوشش کرے گی۔ ریاستی بیانہ کے برعکس عوام کا سیز فائر لائن کی طرف بڑھنا ہندوستان سمیت دنیا بھر کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ ہم کس قدر جانفاشانی، یکجہتی اور ملی ایثار کے ساتھ کشمیر کاز کے لیے حقیقت پسندانہ سوچ رکھتے ہیں۔ کیا ریاست میں موجود کسی بھی گروہ کا بیانہ بین اقوامی سطح پر ریاست کے بیانیے سے مختلف ہو سکتا ہے؟ کیا پولیس کے ساتھ چپقلش سے اندرون خانہ جنگی کا ماحول پیدا نہیں کیا جا رہا جس کا نقصان بہرحال ریاستی و حکومتی اداروں کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے؟ شدت پسندی کو ہوا دینے والوں کو حالات کی نزاکت کو بھانپنا چاہیے۔
المیہ یہ ہے کہ ہمارا بنیادی مسئلہ ہم خود ہیں۔ ہم بھارت کی انتشاری ذہنیت کو تقویت بخشتے ہیں کہ وہ ہم پر اپنی بساط کے مطابق ظلم کر سکے۔ ہم بھارت سے لڑنے جاتے ہیں تو اپنی پولیس پر پتھراؤ کرتے ہیں۔ ہم ایسے مفلوج ذہنیت کے مالک ہیں کہ اپنے اداروں پر حملہ آور ہو کر ہندوستان سے بدلے لیتے ہیں۔ ہمیں سمجھنا ہوگا۔ یہ کٹھن حالات دشمن نے دیکھ بھال کر پیدا کیے ہیں۔ ہمیں ان حالات کی نزاکت سے سیکھنا ہو گا کہ سرحد کی دوسری جانب ہم سے کئی گنا طاقت ور، پڑھے لکھے اور جذباتی نوجوان موجود ہیں۔ جو ہر صورت اپنے دشمن کا مقابلہ انتہائی دلیری سے کر رہے۔ وہ محکوم، مظلوم اور پریشان حال ضرور ہیں مگر تحریک کو چلانے والے ایسے ہی قربان گاہوں سے ڈالیوں کی صورت گزرا کرتے ہیں۔
اگر ہمیں لڑنا ہی ہے تو ہمیں حالات کے مطابق تیاری کرنی ہوگی۔ کیا ہم سفارتی محاذ سے مکمل ناکام ہوگئے ہیں؟ کیا ہمیں ریاست نے ہمیں مقبوضہ کشمیر کے لیے آواز اٹھانے سے روک دیا ہے؟ کیا ریاست کے اداروں نے ہندوستان کے تسلط کو تسلیم کر لیا ہے؟ ہرگز نہیں، تو پھر ہمیں حکومت اور متعلقہ اداروں کو موقع دینا چاہیے کہ وہ اپنے تئیں مکمل جدوجہد سے پرامن راستہ تلاش کریں اور آزادی کا حل ڈھونڈ سکیں۔ بصورت دیگر جنگ لازم ہے۔