https://www.youtube.com/watch?v=VSMhkxm1SWQ
ملک و قوم کو آج جو بھی چینلجز درپیش ہیں وہ قیادت کی بحرانی کیفیت کے باعث ہیں۔ سیاسی جماعتیں، سیاسی تنظیمیں قیادت کی آبیاری کرتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے یوتھ ونگ، لیبر ونگ اور طلبہ تنظیمیں نئی قیادت کی نرسریوں کا کام کرتی ہیں۔ 1999 کے بعد جنرل پرویز مشرف کی آمریت اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت دو ایسے حادثات پیش آئے کہ ملک آج تک سنبھل نہیں پایا ہے۔ پرویز مشرف آمریت میں سیاسی جماعتوں کی چیرپھاڑ کر کے نئے گروپ بنائے گئے۔ احتساب کے نام سیاستدانوں کو بدنام کیا گیا۔ سیاست نہیں ریاست بچاوکے نعرے کے ساتھ اس لوگ میدان میں اترے جنہوں نے آمریت کی حمایت کی اور جمہوریت پر لعنت بھیجتے رہے ہیں۔ دوسری جانب محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے سیاست و جمہوریت یتیم ہو کر رہ گئی۔ پیپلزپارٹی آصف زرداری کے نرغے میں آکر بنیادی نظریات اور فلسفے سے دور ہوتی گئی اور آج یہ حالت ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں کوئی فرق باقی نہیں رہا ہے۔ اچھے لوگ سیاست سے کنارہ کشی کرتے ہیں تو برے لوگ سیاست میں وارد ہوتے ہیں۔ یہی ہوا ۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی سیاسی ساکھ ختم ہونے پر تحریک انصاف ابھر کر سامنے آئی اور سیاسی قدروں، نظریات کو روندتے ہوئے گالی کی سیاست کے گھوڑے پر سوار اقتدار تک پہنچ چکی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد پی ٹی آئی کی اصلیت بے نقاب ہوئی ہے کہ عمران خان سمیت حکمران جماعت میں کسی کے پاس کوئی وژن، کوئی نظریہ، کوئی پروگرام اور نظام نہیں ہے۔ پی ٹی آئی بطور جماعت بھی کہیں اسٹینڈ نہیں کرتی ہے ۔
https://www.youtube.com/watch?v=iHhT-dlOYrw&t=19s
غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ عمران خان جس تیزی کے ساتھ بے نقاب ہوئے ہیں شاید ہی کسی کو اندازہ تھا کہ پی ٹی آئی ہوا سے بھری ٹیوب ہے۔ زیادہ تفصیل میں جانے کی بجائے یہ کہنے کی جسارت کرتا ہوں کہ پاکستان اس وقت سیاسی قیادت سے محروم ہے۔ ایک پرعزم اور نئی متبادل کی قیادت کی ضرورت ہے جو ملک کی معاشی ،سیاسی ،سماجی ترجیحات کا نہ صرف تعین کرے بلکہ درست بھی کرے۔ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے لئے جذباتی نوعیت کا ہے۔ پوری قوم کشمیر پر یکساں موقف رکھتی ہے ۔ کشمیر کے ایشو پر سیاسی قیادت کی عدم موجودگی کے باعث بے یقینی اور بے چینی پائی جاتی ہے ۔ موجودہ دورکی سیاسی جماعتیں کشمیر ایشو پر کوئی خاطر خواہ پوزیشن لینے میں ناکام رہی ہیں ۔ اگر پاکستان کی عوام کی بعض پرتیں بلاول اور مریم میں قیادت دیکھ رہی ہیں تو یہ ذہنی غلامی کی بدترین مثال ہوگی ۔ قیادتوں کی تعمیر کا مطلب یہ نہیں کہ نواز شریف اور زرداری کے بچے پہلے دن سے ہی اپنے بڑوں کی پارٹیوں کی سربراہی کریں ۔ ایسا تجارتی اور کاروباری اداروں میں ہوتا ہے ۔ سیاسی پارٹیوں میں پہلے کارکن کی حیثیت سے کام کا آغاز کرنا پڑتا ہے ۔ مسلم لیگ ن،پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں سیاسی کلچر ہی موجود نہیں ہے ۔ پسندناپسند،تعلق داریاں اوررشتہ داریاں دیکھی جاتی ہیں ۔ عہد کی سیاسی جماعتیں سیاست کے بنیادی اصولوں کے برعکس ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ریجنل سیاسی جماعتیں ،چھوٹی سیاسی گروپ انتخابی اتحاد کی صورت میں میدان عمل میں آئیں اور ملک وقوم کو متبادل قیادت فراہم کریں ۔
https://www.youtube.com/watch?v=OFrasf-v44o
بصورت دیگر پھر کوئی مصنوعی قیادت ابھارئی جائے گی یا پھر مریم اور بلاول کے گیت گانے پڑیں گے یعنی نواز شریف ،زرداری اور عمران خان کسی نئی شکل میں نمودار ہوتے رہیں گے ۔ عوامی حقوق،ملکی ترقی اور قومی مسائل کے حل کےلئے جب تک عوام متبادل کے طور پر سامنے نہیں آتے ہیں تماشا لگے رہے گا ۔