جیکب آباد؛ اربوں روپے کے ترقیاتی فنڈز کن بھول بھلیوں میں گم ہو رہے ہیں؟

چھوٹے موٹے افسران کو تو اینٹی کرپشن نے گرفتار بھی کیا تھا اور کئی بار ان پر مقدمات بھی قائم ہوئے مگر محکمہ روڈز، بلڈنگز، ورکس اینڈ سروسز اور ایریگیشن سمیت ایسے محکمے جہاں ضلع چلانے والوں کا ہاتھ ہے وہاں 20، 25 سالوں میں کبھی بھی اینٹی کرپشن نے کوئی کارروائی نہیں کی۔

04:57 PM, 18 Sep, 2024

ولی سومرو

کسی بھی شہر کی خوبصورتی اور شہریوں کی سہولیات کے لئے ترقیاتی سکیمیں منظور کی جاتی ہیں اور جگہ جگہ مضبوط اور خوبصورت سڑکوں کا جال بچھایا جاتا ہے، سکول، کالج، سول ہسپتال اور دیگر تمام سرکاری عمارتوں کو بھی خوبصورت بنایا جاتا ہے اور رینوویشن کے ذریعے کھنڈرات کے مناظر پیش کرنے والی عمارتوں کو نیا کیا جاتا ہے۔ ان ترقیاتی منصوبوں کے لئے تمام اضلاع میں الگ الگ اربوں روپے منظور کیے جاتے ہیں۔

جیکب آباد میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے پچھلے 15، 20 سالوں میں ویسے تو 50، 60 ارب روپے منظور ہو چکے ہیں اور خرچ بھی ہو چکے ہیں جبکہ حالیہ 6 ماہ میں بھی کروڑوں روپے منظور ہو چکے ہیں۔

الیکشن کو چھ ماہ ہی گذرے ہیں، نئے مالی سال جون 2024 میں ضلع بھر میں اب تک ایک ارب سے زائد رقم ترقیاتی کاموں کی مد میں منظور کر لی گئی ہے، محکمہ روڈز، محکمہ بلڈنگ، محکمہ ایریگیشن، محکمہ پبلک ہیلتھ، ڈسٹرکٹ کونسل اور ڈپٹی کمشنر کے ذاتی اکاؤنٹ سے کروڑوں روپے خرچ ہو چکے ہیں۔

ہر ایک محکمہ کروڑوں روپے کے بجٹ تو پاس کروا چکا ہے، فائلوں کے اندر درج معلومات کے مطابق تمام پیسے خرچ بھی ہو چکے ہیں، مگر زمینی صورت حال کی بات کی جائے تو 80 سے 90 فیصد مقامات پر کوئی خرچہ نہیں ہوا، شہر کی حالت پہلے سے بھی زیادہ بدتر ہو چکی ہے۔

شہری سید مجتبیٰ شاہ کا کہنا ہے کہ اگر پیسے منظور ہوتے ہیں تو خرچ بھی کیے جائیں۔ ہمارے ٹیکس سے جو پیسے ہمارے لئے ہماری ترقی کے لئے منظور ہوتے ہیں وہ کرپٹ افسران اور سیاست دان ملی بھگت کر کے کھا جاتے ہیں اور شہر کی حالت بدتر سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ سید مجتبیٰ شاہ کا کہنا تھا کہ شہر، دیہاتوں اور گلی محلوں کی حالت ابھی بھی خراب ہے تو یہ کروڑوں روپے خرچ کہاں ہوئے ہیں؟

اسی سلسلے میں شہری ریحان سومرو کا کہنا ہے کہ شرم آنی چاہیے منتخب نمائندوں اور ان کی غلامی کرنے والے کرپٹ افسران کو، جنہوں نے کروڑوں روپے منظور ہونے کے باوجود شہر میں کوئی کام نہیں کروایا۔ بس فائلوں کا پیٹ بھر لیا اور اپنا پیٹ پیسے ہڑپ کر کے بھر رہے ہیں۔ ریحان سومرو کا مزید کہنا تھا کہ جو پیسے منظور ہوئے ہیں وہ تمام علاقوں میں خرچ کیے جائیں ورنہ ہم کورٹ جائیں گے اور ڈپٹی کمشنر جیکب آباد سمیت تمام محکموں کے افسران کو عدالت کے سامنے کھڑا کریں گے۔

شہریوں سے بات چیت کرنے اور علاقے میں پھرنے کے بعد عوام کی بات 100 فیصد سچ ثابت ہوتی ہے۔ کروڑوں روپے منظور ہونے کے بعد بھی جیکب آباد شہر کی حالت نہیں بدلی۔ نہ ہی سڑکیں، سکول اور سرکاری عمارتوں کی حالت میں کوئی بدلاؤ آیا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں کیسے ہو سکتا ہے جہاں اینٹی کرپشن، نیب، عدلیہ، میڈیا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی موجود ہوں وہاں پیسے منظور ہونے کے باوجود زمین پر کام ایک روپے کا بھی نہ ہوا ہو؟

نئے مالی سال جون 2024 میں ضلع جیکب آباد کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے سندھ حکومت کی جانب سے 39 کروڑ 51 لاکھ روپے سے زائد فنڈز جاری کیے گئے ہیں، جن میں سے اب تک 24 کروڑ 31 لاکھ 46 ہزار خرچ ہو چکے ہیں۔ ہائی وے کے منصوبوں پر 2 کروڑ 43 لاکھ 80 ہزار اور محکمہ بلڈنگز کے منصوبوں پر 21 کروڑ 87 لاکھ 66 ہزار خرچ دکھایا گیا ہے۔ جبکہ شہر میں کہیں بھی ترقیاتی کام ہوتے نظر نہیں آ رہے۔

رابطہ کرنے پر میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر جیکب آباد ظہور احمد مری کا کہنا تھا کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام برائے سال 2024/25 کے 78 منصوبوں پر کام جاری ہے، اس سال تمام منصوبے مکمل کیے جائیں گے، جس کے لئے مزید 2 ارب جاری ہونے والے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے اعتراف کیا کہ بلوں کی ایڈوانس ادائیگی کرنے کی وجہ سے ایک انجینیئر کاشف سدھایو اپنے عہدے سے معطل ہو چکا ہے، کام ہونے سے پہلے پیسے نکالنے پر دیگر کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔ ڈپٹی کمشنر کا مزید کہنا تھا کہ میں خود جا کر منصوبے چیک کر رہا ہوں، فنڈز میں نے ڈویژن کو جاری کیے ہیں۔ منصوبوں کی تفصیلات ان سے حاصل کریں، میرے پاس تفصیلات موجود نہیں ہیں۔

چیئرمین ڈسٹرکٹ کونسل طاہر کھوسو نے بھی ترقی کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کر دیے ہیں۔ طاہر کھوسو کا کہنا ہے کہ اب تک ترقیاتی منصوبوں پر 4 کروڑ خرچ کر چکا ہوں، شہری علاقے میرے دائره اختیار میں نہیں، دیہی علاقوں کا ذمہ دار ہوں، جو کام ہوا ہے وہ ظاہر ہے، ضلع بھر کی 44 یونین کونسلز ہیں جہاں بہت سارا کام ہوا ہے اور اب بھی بہت ساری یونین کونسلوں میں کام جاری ہے۔

جیکب آباد میں محکمہ پبلک ہیلتھ کو 10 کروڑ 97 لاکھ روپے جاری ہو چکے ہیں اور اب تک 44 لاکھ 92 ہزار سے زائد رقم خرچ ہو چکی ہے۔ یہ رقم فوری طور پر خرچ کرنے کے لئے محکمہ تیاری میں ہے۔ رابطہ کرنے پر انجینیئر پبلک ہیلتھ کا کہنا تھا کہ ابھی پیسے منظور ہوئے ہیں، جو ضروری ہوگا وہاں کام کیا جائے گا، جیسے ہی ایک کروڑ سے زائد رقم خرچ ہو گی پریس ریلیز جاری کریں گے اور ہر بار تمام اخراجات ظاہر کریں گے۔

محکمہ ایریگیشن میں بھی کئی سالوں سے کرپشن کی باتیں چلتی رہتی ہیں۔ یہ بھی کسی احتساب سے ڈرنے والے نہیں ہیں، کیونکہ کبھی بھی نیب یا اینٹی کرپشن نے ان کا احتساب نہیں کیا ہے۔ ابھی اگست 2024 میں محکمہ ایریگیشن کی جانب سے 40 کروڑ 6 لاکھ 36 ہزار روپے خرچہ ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ پہلی بار نہیں ہے، پہلے بھی کئی بار اربوں روپے کے فنڈز ایریگیشن محکمے کو سالانہ وصول ہوتے رہے ہیں۔

سینیئر صحافی مظہر عباس شاہ کا کہنا ہے کہ جیکب آباد کے ایریگیشن آفیس کا نظام ایک ایس ڈی او مختیار شیخ چلا رہا ہے، وہاں درجن سے زائد انجینیئر ( ایکس سی این) آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، مگر ایک ایس ڈی او ہے جو 15، 20 سالوں سے یہاں تعینات ہے۔ جتنے فنڈز آتے ہیں تمام فنڈز کو خرچ کرنے اور اوپر سے لے کر نیچے تک تمام افسران اور سیاست دانوں کو راضی رکھنے کا کام بھی ایس ڈی او مختیار شیخ کا ہے۔ سینیئر صحافی نے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے ایس ڈی او کو تبدیل کر کے کروڑوں روپے فنڈز جاری ہونے کی انکوائری کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

جیکب آباد کے محکمہ روڈز کا ٹینڈر کلرک جیکب آباد کے موجودہ ایم این اے پیپلز پارٹی کے اعجاز جکھرانی کا برادر نسبتی ہے، جو 10 سال سے زیادہ عرصے سے ایک ہی جگہ پر ٹینڈر کلرک ہے۔ اس کے علاوہ بھی جتنے افسران اور ٹینڈر کلرک لگتے ہیں وہ بھی اعجاز جکھرانی کے کہنے پر لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ ڈپٹی کمشنر اور ایس ایس پی بھی ان کے کہنے پر لگتے ہیں۔ محکمہ روڈز کے ٹینڈر کلرک شاہین پٹھان نے رابطہ کرنے پر کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔

شہری امتیاز سومرو کا کہنا تھا کہ ایک ٹینڈر کلرک 12 سال سے ایک ہی جگہ پر تعینات ہے، ایک ٹینڈر کلرک ایک ہی جگہ پر اتنے عرصے سے تعینات ہو اور وہ ہو بھی موجودہ ایم این اے کا سالا، تو کیا یہ کرپشن کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟ امتیاز سومرو کا مزید کہنا تھا کہ کیا اینٹی کرپشن اور نیب کو یہ سب کچھ نظر نہیں آتا؟

ڈپٹی کمشنر، محکمہ بلڈنگ، ورکس اینڈ سروسز اور محکمہ روڈز سمیت ضلع کونسل کے چیئرمین نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ ہر جگہ کروڑوں روپے خرچ کیے ہیں مگر بار بار عوام کی چیخ و پکار اور واضح کیے گئے علاقوں کی تصویروں سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ کام ایک روپے کا بھی نہیں ہوا ہے۔ اکثر دیگر شہروں میں یوں ہوتا ہے کہ 50 سے 80 فیصد کام ہوتا ہے بقایا ٹھیکیدار یا سیاست دان فنڈز ہڑپ کر جاتے ہیں مگر یہاں تو ہر جگہ پر مکمل پیسے ہڑپ کیے جاتے ہیں۔

جیکب آباد کے لیے پندرہ بیس سالوں میں اربوں روپے منظور تو ہوئے ہیں مگر شہر کی حالت بہتر نہ ہونے پر سابق وفاقی وزیر محمد میاں سومرو کی ہمشیرہ ملیحہ سومرو کی جانب سے اربوں روپے کی کرپشن پر پیپلز پارٹی کے موجودہ ایم این اے اعجاز حسین جکھرانی کے خلاف نیب میں درخواست دی گئی تھی، جس پر اعجاز جکھرانی کے خلاف کئی بار گھیرا تنگ بھی ہوا ہے۔ نیب عدالت میں اربوں کے مقدمات چل رہے تھے جو حکومت کی تبدیلی کے بعد نیب قانون میں ہونے والی ترمیم کے بعد ختم ہو گئے ہیں۔

نیب سندھ نے ایک بار کراچی میں اعجاز جکھرانی کی رہائش گاہ پر چھاپا مارا تھا اور ایک بار جیکب آباد میں ان کی رہائش گاہ پر چھاپا مارا تھا مگر اعجاز جکھرانی ہاتھ آتے آتے نکل گئے۔ پھر اعجاز جکھرانی کے رشتہ داروں اور پارٹی کے کچھ لوگوں نے اعجاز جکھرانی کے گھر کے باہر گھیراؤ کیا۔ گھر کے اندر نیب کی ٹیم موجود تھی، نیب ٹیم نے پولیس کو اطلاع دی مگر پولیس نے اپنی بے بسی ظاہر کی۔ آئی جی سندھ کو اطلاع ملی تو پولیس کو حکم ملا کہ تحفظ فراہم کیا جائے۔ پھر پولیس کی مدد سے جیسے ہی نیب ٹیم اعجاز جکھرانی کے گھر سے باہر نکلی، اعجاز کے لوگوں نے نیب ٹیم پر حملہ کر دیا۔ نیب ٹیم کو نقصان تو نہ ہوا مگر مظاہرین نے گاڑی کا گھیراؤ کر لیا اور بہت زیادہ نعرے بازی کی گئی۔

نیب ٹیم پر حملے کے بعد نیب نے کبھی بھی دوبارہ جیکب آباد کا رخ نہیں کیا، نہ ہی کبھی اینٹی کرپشن نے کبھی کوئی بڑی کارروائی کی ہے۔

چھوٹے موٹے افسران کو تو اینٹی کرپشن نے گرفتار بھی کیا تھا اور کئی بار ان پر مقدمات بھی قائم ہوئے مگر محکمہ روڈز، بلڈنگز، ورکس اینڈ سروسز اور ایریگیشن سمیت ایسے محکمے جہاں ضلع چلانے والوں کا ہاتھ ہے وہاں 20، 25 سالوں میں کبھی بھی اینٹی کرپشن نے کوئی کارروائی نہیں کی۔

مزیدخبریں