بھارت میں تبلیغی جماعت کا کردار اور ہندو انتہا پسندی
آج کے بھارت میں یہ تقسیم اور نفرت کی آگ تیزی سے پھیل رہی ہے اور جہاں بھارتی حکومت سوا ارب کے ملک کو سنبھالنے میں ناکام نظر آتی ہے، وہاں مسلمانوں کے خلاف منظّم مہم ایک سیاسی ہتھیار بن گئی ہے۔ پاکستان کی طرح ہندوستان کے تبلیغی جماعت کے اجتماعات کورونا وائرس کے باوجود نہیں رکے تھے اور ان اجتماعات میں شرکت کرنے والے سینکڑوں لوگ اس وائرس کا شکار ہو گئے ہیں۔ لیکن بھارتی حکومت اور اس کا ہمنوا میڈیا ہندوستان میں پھیلتی ہوئی وبا کو فقط مسلمانوں کی ذمہ داری قرار دے رہا ہے۔
کورونا وائرس نے بھارتی حکمران جماعت کی شدت پسندی میں اضافہ کیا
یاد رہے کہ اس سے قبل پچھلے ایک سال میں بی جے پی کی انتہا پسند حکومت نے متعدد ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جو کہ واضح طور پر مسلم کش تھے اور جن کی مذمت دنیا بھر میں بھی ہوئی لیکن ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ مبصرین کا خیال تھا کہ شاید بی جے پی کی دلّی میں شکست کے بعد اور معاشی چیلنجز کی وجہ سے مسلم دشمن مہم جوئی کی شدت میں کمی واقع ہوگی لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے ہندو انتہا پسندوں کو ایک نادر موقع مل گیا جس سے نہ صرف وہ اپنے مذموم ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں بلکہ مودی سرکار کی فاش غلطیوں اور نااہلیوں سے عوام کی توجہ بھی ہٹا رہے ہیں۔
ہندو تہوار منائے جانے کی رپورٹنگ پر صحافی کے خلاف مقدمہ
ہندوستان کی تیزی سے گرتی ہوئی معیشت اور شرح ترقی کی رفتار میں گراوٹ اور کروڑوں لوگوں کی بیروزگاری کی تمام تر ذمہ داری ایک اقلیت پر ڈالی جا رہی ہے۔ اس وقت ہندو مسلم فرقہ واریت اپنے عروج پر ہے اور کئی میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلمان اقلیت مزید غیر محفوظ ہو گئی ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جنوری سے مارچ تک ہندو مذہبی تہوار پورے طمطراق کے ساتھ منائے گئے لیکن ہندوستانی میڈیا ان کا ذکر کرنا بھی گوارا نہیں کر رہا اور ذکر بھی کیسے کرے کہ جب The Wire نے ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ نے ہزاروں لوگوں کو ایک ہندو تہوار کے لئے جمع کیا تھا تو اس رپورٹ کو شائع کرنے کی پاداش میں اس کے مدیر سدھارتھ ورداراجن کے خلاف FIR کاٹ دی گئی اور اب وہ پولیس کی پیشیاں بھگت رہے ہیں۔
اروندھتی رائے کی بھارتی حکومت پر تنقید
نیویارک ٹائمز میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے کئی چینلز کو بند کرنے کے لئے اشتہاروں کو رکوانے کی کوشش بھی کی ہے اور ہندوستان میں میڈیا کی آزادی اس وقت خطرے کی زد میں ہے۔ لیکن بھارت کے متنوع معاشرے اور جمہوری اقدار کی وجہ سے وہاں پر مودی کی ان پالیسیوں پر زبردست تنقید بھی ہو رہی ہے۔ اروندھتی رائے ہندوستانی لکھاریوں اور سول سوسائٹی کی ایک مایہ ناز نمائندہ ہیں۔ جرمن میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت بھارتی حکومت کے اقدامات مسلمانوں کی نسل کشی کے مترادف ہیں۔
مایہ ناز اسرائیلی پروفیسر کی ہندوستان پر تنقید
نہ صرف ملک کے اندر بلکہ ہندوستان سے باہر بھی مودی سرکار کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ معروف اسرائیلی پروفیسر اور مشہورِ زمانہ کتاب The Sapiens کے مصنف Yuval Noah Harari کے مطابق بھارتی سماج اور سیاست ایک غلط رخ کی طرف مڑ گئے ہیں اور اسی ڈگر پر چلتے رہے تو شاید واپسی کا رستہ ممکن نہ ہو۔
انہوں نے حال ہی میں ایک بھارتی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس بھارت کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے کیونکہ بھارت جرمنی، امریکہ یا جاپان کی طرح ایک امیر ملک نہیں ہے۔ ماضی کی عالمی وباؤں بشمول Spanish Flu کے، ہندوستان سب سے زیادہ بری طرح متاثر ہوا تھا، جب ہندوستان کی 5 فیصد آباری موت کے منہ میں چلی گئی تھی۔ انہوں نے بھارتی حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ نفرت کا راستہ نہ چنے بلکہ اپنے ہمسایوں اور اپنے ملک کے اندر دیگر اقلیتوں کے ساتھ یکجہتی پیدا کرے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے ایسی خبریں پڑھی ہیں کہ بھارت میں اس وبا کا الزام مسلمان اقلیت پر دھرا جا رہا ہے کہ یہ دہشتگردی کا ایک ذریعہ ہے اور مسلمان جان بوجھ کر بھارت میں کورونا وائرس پھیلا رہے ہیں۔ یہ مکمل nonsense اور انتہائی خطرناک ہے۔ آج ہمیں نفرت کی نہیں بلکہ محبت اور یکجہتی کی ضرورت ہے۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ ہندوستانی اپنی مذہبی رواداری کی روایت کو ایسے وقت میں یاد کریں گے اور اس مشکل صورتحال میں اپنے اندر کی نفرت اور لالچ کو شکست دے کر ماضی سے زیادہ طاقتوربن کر ابھریں گے۔
ہندوستان کا سب سے بڑا چیلنج کیا ہے؟
ہندوستان کو اس وقت تین بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ سب سے پہلے تو کروڑوں غریب خاندانوں کی کفالت کا بندوبست کرنا ہے جو پچھلے چند ہفتوں میں بیروزگار ہو گئے ہیں۔ ہندوستان کی معاشی ابتری مودی سرکار کے لئے دوسرا بڑا چیلنج ہے۔ چند سال پہلے تک بھارتی معیشت کو ایک کامیاب ماڈل قرار دیا جا رہا تھا لیکن آج تمام عالمی اداروں اور بھارت کے غیر جانبدار ماہرین اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ معاشی تنزلی اب بہت دیر تک چلے گی۔
سب سے بڑا چیلنج نفرت کا وائرس ہے جو کورونا وائرس سے کہیں زیادہ مہلک ہے اور تیزی سے پھیل رہا ہے۔ لیکن ہندتوا فلسفے کو اس امر سے کوئی غرض نہیں کہ ہندوستان کی معاشرت تباہ ہو رہی ہے اور کئی دہائیوں پر مشتمل جمہوری عمل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ انتہا پسندی سے بڑا کوئی مرض نہیں، کیونکہ ایک وقت کے بعد وہ لاعلاج ہو جاتا ہے۔