سیاسی مبصرین کی راٸے میں وزیر آعظم در اصل کورونا واٸرس کے خلاف سندھ حکومت کےحفاظتی اقدامات کو اپنی نااہلی سمجھ رہے ہیں۔ انہیں اس بات کی پر پرخاش ہے کہ عالمی دنیا وزیر سندھ کے اقدامات کو کیوں سرہا رہی ہے۔ سندھ میں ابتداٸی طور لاک ڈاٶن پر کامیاب عمل ہو رہا تھا۔مگر لاک ڈاٶن پر عمران خان کی عقل سے خالی تاویلوں کی وجہ سے کراچی میں گڑ بڑ شروع ہوٸی، جہاں مساجد سے پولیس اہکاروں پر حملے شروع ہوٸے غور طلب بات یہ ہے ایسے واقعات ان حلقوں میں رونما ہوٸے جہاں پی ٹی آٸی کو نماٸندگی کا شرف بخشا گیا ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ منظر یہ ہے کہ سندھ میں لاقانونیت کی آگ بھڑکانے والوں کے اپنے کپڑے اسلام آباد میں ہی جلنے لگے ہیں، جہاں لال مسجد کے برطرف خطیب کسی غیبی آشیر باد سے ریاست کی رٹ کو پاٶں سے روند رہے ہیں۔
یہ 1974 کا وقعہ ہے جب ایک سیاستدان میر غوث بخش بزنجو جو شہید ذوالفقار علیبھٹو کے سیاسی مخالف تھے نے اپنی پارٹی کے اجلاس میں مسقبل کی تصویر کشی کرتے ہوٸے پیشن گوٸی کی تھی کہ " ہمیں چاہیے کہ بھٹو صاحب کے ہاتھ مضبوط کریں ورنہ بھٹو کو فوج اورمعاشرے کو ملاٸیت کھا جاٸے گی۔ برسوں بعد جب ہم حالات کا تجزیہ کرتے ہیں تو سچ یہ ہے کہ ریاست کمزور اور ملاٸیت طاقتور نظر آتی ہے ، یہ کیسے ممکن ہے کہ مولوی عزیز جو سرکاری ملازم ہیں ریاست کی رٹ کو پامال کرے اور بندوق بردار محافظین کے ساتھ لال مسجد میں داخل ہوکر قانوں کو جوتے کی نوک پر رکھے۔ ایسے وقت جب تمام اسلامی ممالک میں کورونا وبا کی وجہہ سے مساجد کی بجاٸے گھروں پر نماز پڑھی جا رہی ہے ،امام کعبہ اور مفتی آعظم کے فتوی کے باوجود پاکستان کے علماء امام کعبہ اور مفتی آعظم کے فتوے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں تو عاجزانہ سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ہمارے عالم دین امام کعبہ اور مفتی آعظم سے زیادہ افضل ہیں ؟ ایسے میں وزیر آعظم عمران خان جو ریاست کے تمام طبعی ثمرات سے مالا مال بنی گالا محل میں محفوظ زندگی گذار رہے ہیں جہاں کٸی بار جراثیم کش اسپرے ہوتا ہے سمجھ رہے کہ پورا ملک کورونا سے محفوظ ہے۔ مگر اسلام آباد کورونا وبا سے جہلایا ہوا ہوا ہے کیونکہ عمران خانکے کورونا واٸرس کے بارے تاویلیں نے عام انسانوں کو پریشان کر رکھا ہے .