حکومت جب ٹی ایل پی والوں سے سفیر نکالنے کا معاہدہ کررہی تھی تو کیا انہیں سب باتوں کا علم نہیں تھا کہ ہم اتنا بڑا فیصلہ نہیں کرسکتے حکومت میں بیٹھے لوگ وزراء، مشیران کی فوج ظفر موج یہ سب کیس مرض کی دوا ہیں ۔
اول تو حکومت کو ایسا معاہدہ ہی نہیں کرنا چاہیے تھا اگر کچھ وقت نکالنے کی خاطر معاہد کرلیا تھا تو اس دوران ان سے بات چیت کی جاتی انہیں قائل کیا جاتا کہ ریاست کی کچھ مجبوریاں ہیں یقینًا بات چیت ہوئی بھی ہوگی۔ مگرحکومت کو اتنی عجلت نہیں دکھانی چاہیئے تھی ابھی 20 اپریل کو پورا ایک ہفتہ باقی تھا سعد رضوی کو 13 اپریل کو لاہور میں گرفتار کرلیا گیا حکومت کو چاہیئے تھا کہ 19 کی رات تک ان سے مذاکرات کئیے جاتے یا انہیں قائل کرنے کی کوشش کی جاتی کیوں کہ آخر کار ہونی بات چیت ہی ہے جنگوں کا احتتام بھی بات چیت پر ہی ہوتا ہے۔
اب خبریں آرہی ہیں کے کل رات سے کالعدم ٹی ایل پی کیساتھ حکومت کے مذاکرات جاری ہیں اور اگر یہی مذاکرات موثر طریقے سے پہلے کرلیتے جاتے تو جو خون خرابہ ہوا اس سے بچا جاسکتا تھا۔
ناموس رسالت والا معاملہ حساس تھا اسے افہام و تفہیم کیساتھ حل کرنا چاہیے تھا ملک میں 70 فیصد عوام بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہے حکومت کو ان کیساتھ بات چیت کے زریعے کوئی درمیانی راستہ نکالنا چاہیے تھا مگر افسوس حکومتی نااہلی کی وجہ سے نقصان پاکستان کو ہورہاہے عوام یہاں زلیل وخوار ہورہی فرانس کا کیا بگڑا اپنے ملک میں جلاؤ گھیراؤ کررہے ہیں۔
پچھلے ہفتے سے جو کچھ ملک میں ہورہا ہے یہ سب حکومت کے اناڑی پن کا نتیجہ ہے کل ہونے والی فائرنگ کے بعد حکومت کو ہر جانب سے تنقید کا سامنا ہے حالات جیسے بھی ہوں ریاست کو صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیئے تھا۔
ماڈل ٹاؤن میں بھی لوگوں پر ریاست کی جانب سے سیدھا فائر کھولا گیا اس وقت ن لیگ کی حکومت تھی آج تک لوگ نہیں بھولے ان پر لگنےوالا یہ داغ کبھی نہیں دھل پائے گا اور آج تحریک انصاف کی حکومت میں کل والا واقعہ ہوگیا انہیں بھی اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی ابھی شیخ رشید کے گھر کے باہر لوگ جمع تھے خیر انہیں منتشر کردیا گیا ہے مگر ہماری ریاست کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہم تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جارہے ہیں، عدم برداشت ہر آنے والے دن کیساتھ بڑھ رہاہے ان سب حالات کی زمہ دار ہماری ریاست ہے ۔ ریاست کے اسی رویہ کی وجہ سے بنگلہ دیش بنا
ریاست نے افغان جنگ میں اپنی عوام کو ایندھن بنایا
اسی جنگ کے نتیجے میں طالبان جیسے سانپ ریاست نے پالے جو بعد میں ہمیں ڈسنے لگے، الطاف حسین بھی ریاست کی فخریہ پیش کش تھی ۔ مختصریہ کے سقوط ڈھاکہ سے لیکر اب تک ملک میں جو کچھ بھی ہوا اس کی زمہ دار اس ملک کی اشرافیہ ہے جن کے ہاتھوں میں اس نظام کی بھاگ دوڑ ہے فیصلے ان کے ہوتے ہیں اور مرتی غریب عوام ہے۔ مایوسی گناہ ہے پر یوں لگتا ہے کے ملک ایسے ہی چلتا رہے گا ۔