درخواست ضمانت کے فیصلے میں دونوں ججز کے فیصلوں میں اختلاف کے بعد چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس محمد قاسم خان نے 3 رکنی خصوصی فل بینچ تشکیل دے دیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے شہباز شریف کی درخواست ضمانت کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا جس کے بعد خصوصی فل بینچ 21 اپریل کو شہباز شریف کی درخواست پر ازسرنو سماعت کرے گا۔
بینچ کی سربراہی جسٹس علی باقر نجفی کریں گے جبکہ جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس شہباز رضوی بھی اس کا حصہ ہوں گے۔
اس سے قبل 14 اپریل کو دو رکنی بینچ نے شہباز شریف کی درخواست منظور کرتے ہوئے اس کے خلاف الگ الگ فیصلہ دیا تھا۔
دو رکنی بینچ جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس اسجد جاوید گھرال پر مشتمل تھا جس میں جسٹس سردار سرفراز ڈوگر نے شہباز شریف کی ضمانت منظور کی تھی جبکہ جسٹس اسجد جاوید گھرال نے اسے مسترد کر دیا تھا۔
درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے ججز نے الگ الگ فیصلہ سناتے ہوئے ریفری جج کی نامزدگی کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھیج دیا تھا۔
اپنے حکم میں جسٹس اسجد جاوید گورال نے سینئر جج پر 'یکطرفہ طور پر' ضمانت دینے کا تذکرہ کیا تھا۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ میرے لیے یہ بات حیران کن ہے کہ مذکورہ حکم کے ابتدائی پیراگراف میں اس کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ درخواست گزار کو متفقہ طور پر ضمانت دینے کا اعلان کیا گیا تھا جو زمینی حقیقت کے منافی ہے۔
جسٹس اسجد جاوید گورال نے اپنے اختلافی نوٹ میں کہا کہ 'حقیقت میں فریقین کو سننے کے بعد جب میرے برادر ساتھی نے درخواست کی اجازت دینے کے لیے میری رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کی تو میں نے عدالت میں انکار کردیا اور چیمبر میں مشاورت کے وقت بھی میں نے فوراً ہی انکار کردیا تھا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ میرے برادر ساتھی نے یکطرفہ طور پر اپنے فیصلے کا اعلان کیا اور اپنے نائب قاصد کے ذریعے درخواست گزار کی ضمانت منظور کی۔
جسٹس اسجد جاوید گورال نے ریماکس دیے کہ 'یہ عدالتی تاریخ کی بہت بدقسمت اور نایاب مثال ہے جس میں ڈویژن بینچ کے سربراہ اور سینئر ممبر سے توقع نہیں کی جا سکتی تھی'۔
دوسری جانب جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر نے اپنے حکم میں کہا کہ 'ضمانت کی منظوری سے متعلق متفقہ حکم کا اعلان کیا گیا تھا' لیکن جب درخواست گزار کی رہائی کا مختصر حکم جسٹس اسجد جاوید گورال کے دستخط کے لیے پیش کیا گیا تو انہوں نے اپنا اختلافی نوٹ پیش کردیا۔
جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر نے ریمارکس دیے کہ 'درخواست گزار عوامی نمائندہ ہیں اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی ہیں جنہیں اپنے آئینی اور قانونی فرائض ادا کرنے ہوتے ہیں، وہ ماضی میں مجرم نہیں رہے اور موجودہ کیس میں پری ٹرائل کی سماعت سے گزر رہے ہیں۔
بعدازاں چیف جسٹس نے اس معاملے پر فل تین رکنی فل بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور مسلم لیگ(ن) کے صدر شہباز شریف کی گزشتہ برس ستمبر میں لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں درخواست مسترد کی تھی جس کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے انہیں احاطہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیا تھا اور وہ 7ماہ سے جیل میں ہیں۔