سپریم کورٹ کے سوموٹو نوٹس پر پاکستان نے کینیا کے حکام سے خط لکھ کر ارشدشریف قتل کیس کی نئی تحقیقات کیلئے اجازت مانگی تھی۔تاہم کینیا حکام نے تعاون سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ارشد شریف کیس میں مزید تفتیش کی اجازت نہیں دے سکتے۔
کینیا کے حکام 5 سے زائد بار پاکستان کی درخواست رد کرچکے ہیں۔
کینین حکام کا کہنا ہے کہ تفتیش میں عمر شاہد حامد اور اطہر وحید سے بھرپور تعاون کیا تھا۔ نئی تحقیقات کا بھی مختلف نتیجہ نہیں نکلے لگا۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ارشد شریف قتل کیس میں ضروری تعاون پہلے ہی کرچکے۔ سپریم کورٹ کا حکم پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستانی تفتش کاروں کی رپورٹ میں کینین حکام پر تنقید سے مقامی ادارے سخت ناراض ہیں۔ جبکہ ارشد شریف قتل کیس پر کینیا حکومت کی تحقیقاتی رپورٹ اب تک شائع نہیں ہوئی ہے۔
دونوں اطراف کے ذرائع نے تصدیق کی کہ کینیا کی حکومت نے پانچ مواقع پر واضح طور پر کہا کہ اس نے کافی مدد کی ہے اور وہ افریقی ملک میں مزید تحقیقات کی اجازت نہیں دے گی۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے ازخود نوٹس کی سماعت کے بعد نئی تحقیقات کا حکم دیا گیا۔ سپریم کورٹ بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ اس کے بعد سے، اسلام آباد نے سپریم کورٹ کی ہدایات کا حوالہ دیتے ہوئے متعدد بار کینیا کو خط لکھا ہے۔ لیکن کینیا کی حکومت نے حکام کو آگاہ کیا ہے کہ ضروری تعاون پہلے ہی دیا جا چکا ہے اور سپریم کورٹ کے احکامات پاکستان کا اندرونی مسئلہ تھے۔
اس سے قبل ایف آئی اے حکام کی جانب سے تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ کینیا کی پولیس صحافی ارشد شریف کے ’منظم‘ قتل میں ملوث ہے۔
ڈائریکٹرجنرل ایف آئی اے محسن حسن بٹ کا کہنا تھا کہ ہمیں یقین ہے کہ کینیا کی پولیس صحافی ارشد شریف کے ’منظم‘ قتل میں ملوث ہے۔ کینیا پولیس کے تین شوٹرز سے پاکستانی تحقیقاتی ٹیم نے پوچھ گچھ کی جبکہ چوتھے شوٹر تک رسائی نہیں دی جارہی۔
ڈی جی ایف آئی اے محسن حسن بٹ کا کہنا تھا کہ کینیا پولیس کے 4 میں سے 1 افسر کو پاکستانی تحقیقات کاروں کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔
ڈی جی ایف آئی اے نے صحافی مرتضی علی شاہ کو بتایا کہ کینیا کی پولیس کے تین شوٹرز سے پاکستانی تحقیقاتی ٹیم نے پوچھ گچھ کی تھی، تینوں شوٹرز کے بیانات میں ناصرف گھمبیر نوعیت کا تضاد تھا بلکہ بیانات غیر منطقی تھے۔ جس ایک افسر کو پیش نہیں کیا گیا اس کا ہاتھ دو ہفتے قبل زخمی ہو گیا تھا۔ کینیا پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس افسر کا ہاتھ اس وقت زخمی ہوا تھا جب 23 اکتوبر کی رات پولیس کی طرف سے ارشد شریف کی گاڑی پر اور گاڑی سے پولیس کے یونٹ پر فائرنگ ہو رہی تھی۔
ڈی جی ایف آئی اے نے مزید کہا کہ وہ ارشد شریف پر گولیاں چلانے والوں میں شامل تھا۔ اس شوٹر کا بیان بہت اہمیت کا حامل ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کے افسران عمر شاہد حمید اور اطہر وحید نےارشد شریف کی گاڑی کا بھی تفصیلی جائزہ لیا تاکہ تعین کیا جاسکے کہ گاڑی کے اندر سے گولی چلائی گئی یا نہیں تاہم انہیں اندر سے چلائی جانے والی گولی کا کوئی سراغ نہیں ملا۔کینیا پولیس بین الاقوامی قوانین کے تحت صحافی کے اس طرح کے سفاکانہ قتل جیسے جرم کی تحقیقات میں تعاون کی پابند ہے۔
واضح رہے کہ 23 اکتوبر کو نامور پاکستانی صحافی اور اینکر ارشد شریف کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے قریب فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا۔ واقعے کے بعد کینیا پولیس کی جانب سے بیان جاری کیا گیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ اہلکاروں نے شناخت میں غلط فہمی پر اس گاڑی پر گولیاں چلائیں جس میں ارشد شریف سوار تھے۔
یاد رہے کہ کینیا کی پولیس پر ماورائے عدالت قتل کے الزامات تواتر سے میڈیا میں رپورٹ ہوتے آئے ہیں۔ مختلف ملکوں کے شہریوں کے کینیا کی پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کے واقعات پر ہیومن رائٹس واچ اور دیگر بین الاقوامی ادارے مذمت کر چکے ہیں۔