نیب رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2006 میں نواز شریف فیملی نے شہباز شریف فیملی سے حدیبیہ انجینئرنگ مل لے لی، پھر 2007 میں شہباز شریف فیملی نے اپنے بزنس کو بڑھانے کے لیے شریف فیڈ مل سمیت دیگر کمپنیاں بنائیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نئی کمپنیز بنانے کے لیے محمد عثمان سے فنڈز سے متعلق سوالات کیے گئے جس پر محمد عثمان نے بتایا کہ نئی کمپنیز کے لیے غیر ملکی ترسیلات اور قرضہ جات کے ذرائع بنائے گئے، غیر ملکی ترسیلات اور قرضہ جات کے لیے نصرت شہباز اور ان کے بیٹوں کے بینک اکاؤنٹس استعمال کیے گئے اور 2007 سے قبل غیر ملکی ترسیلات کو حمزہ شہباز مینج کرتے تھے۔
نیب رپورٹ کے مطابق محمد عثمان سے شہباز شریف کے لیے منی لانڈرنگ سے متعلق سوالات بھی کیے گئے، جس پر محمد عثمان نے بیان دیا ہے کہ سب کچھ سلیمان شہباز کے کہنے پر کرتا تھا، سلیمان شہباز کے کہنے پر وقار ٹریڈنگ کمپنی نے 600 ملین کی جعلی غیر ملکی ترسیلات کیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ساری رقم چیک کے ذریعے سلیمان شہباز کے ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی تاہم محمد عثمان نے بیان دیا کہ سلیمان شہباز کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے، اس کا انہیں معلوم نہیں۔
نیب رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بے نامی اکاؤنٹس سے متعلق ملزم محمد عثمان سے تحقیقات ابھی جاری ہیں۔
خیال رہے کہ 3 اگست کو نیب نے شریف گروپ کے چیف فنانشل آفیسر (سی ایف او) محمد عثمان کو گرفتار کیا تھا اور وہ نیب کی حراست میں ہیں۔