19 اگست: افغانستان کا یومِ آزادی، جب افغانوں نے انگریز کو شکستِ فاش دے دی

02:45 PM, 19 Aug, 2020

مظہر آزاد
1837 مں پشاور پر سکھوں کے قبضے کے بعد افغان شاہ امیر دوست محمد خان نے اپنے بھائی اکبر خان کی قیادت میں افغان فوج کو جلال آباد اور تورخم کے راستے پشاور پر حملے کے لئے بھیجا تاکہ افغانستان کے سرمائی دارالخلافہ پشاور کو سکھوں سے واپس حاصل کر سکے لیکن بدقسمتی سے اکبر خان کو شکست ہوئی اور جمرود قلعہ افغان فوج کا مقتل گاہ بن گیا۔ امیر دوست محمد خان نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل حملے کرتا رہا۔ سکھوں نے پنجاب، پشاور اور ملحقہ علاقے جزوی طور پر اپنے اتحادیوں انگریزوں کے حوالے کر دیے۔ اس جنگ میں انگریز اور سکھ متحد ہو کر دوست محمد کو افغانستان کے تخت سے ہٹا کر اس کی جگہ شجاع الملک کو بادشاہ بنانا چاہتے تھے، جب کہ تاریخی حقائق اور دستاویزات سے ثابت ہے کہ رنجیت سنگھ شجاع الملک کو دھوکہ دے کر افغانستان پر خود قابض ہونا چاہتا تھا۔

‎انگریز فوج نے پہلی انگریز افغان جنگ کی ابتدا کر کے ایک بھاری فوج لے کر افغانستان پر حملہ کیا اور مارچ 1839 میں بولان پاس کو پار کر کے افغانستان کےجنوبی شہر کوئٹہ پہنچ گئے۔ یہ فوج 25 اپریل 1839 کو قندہار پہنچی اور جون کے مہینے تک قندہار میں رہی۔ 27 جون کو انگریز نے غزنی شہر پر حملہ کیا، جہاں انگریز فوج کا گلگت سے آئے ہوئے قبائلی مجاہدین اور افغان فوج سے سخت ٹاکرا ہوا، بالآخر انگریز فوج 23 جولائی 1839 کو غزنی پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئی۔ اس جنگ میں دو سو انگریز جب کہ 500 گلگتی اور افغان فوجی ہلاک ہوئے۔

غزنی کے بعد ہندوستان سے تازہ دم فوجیوں کے آمد کے بعد 13 نومبر 1839 کو بلوچ قبائلیوں نے انگریز فوج پر اس وقت شدید حملہ کیا جب وہ بولان پاس کی طرف حرکت کر رہے تھے اور یوں انگریزوں کے خلاف گوریلا جنگ شروع ہوئی۔ تازہ دم افواج پہنچنے کے بعد اگست کے مہینے میں انگریزی افواج نے کابل پر قبضہ کیا اور امیر دوست محمد خان مجبور ہو گئے کہ وہ افغانستان کے شمال بامیان صوبے میں پناہ لیں۔ امیر دوست محمد خان نے اپنے فوجیوں کو اکھٹا کرنا شروع کیا اور گوریلا جنگ شروع کی۔ انگریز فوج افغانوں کی گوریلا جنگ کے سامنے بے بس نظر آئی اور ہزاروں انگریز فوجی افغان گوریلا جنگجوؤں کے شکار بن گئے اور انگریز جرنیل میک ناٹن نے امیر دوست محمد خان کے ساتھ صلح کرنے کی کوشش کی۔ میک ناٹن نے امیر دوست محمد خان کو کابل بلایا اور اس کے ساتھی افغان سرداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ گوریلا جنگ چھوڑ دیں۔ یہ مذاکرات ناکام ہوئے تو میک ناٹن نے امیر دوست محمد خان کے بیٹے اکبر خان سے علیحدہ سے مذاکرات بھی کیے لیکن اکبر خان نے اسے قید کر لیا اور بعد میں اس کو مار دیا گیا۔ اس کے مارے جانے کی تفصیلات کی آزاد ذرائع سے کبھی تصدیق نہیں ہو سکی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس نے بھاگنے کی کوشش کی جس میں یہ مارا گیا اور ایسی روایات بھی ہیں کہ دوست محمد خان نے اسے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا۔ طیش میں آ کر انگریز نے میک ناٹن کا بدلہ لینے کے لئے آدھے کابل کو جلا دیا۔ لیکن جنوری 1842 میں انگریز مجبور ہوا کہ اپنی شکست قبول کر کے افغانستان کے ان علاقوں سے نکل جائے جہاں ان کے خلاف گوریلا جنگیں لڑی جا رہی تھیں۔



روس اور برطانیہ کے درمیان یورپ میں جاری کشیدگی کے خاتمے کے بعد روس نے اپنی توجہ وسط اشیا کی طرف مبذول کر لی تھی۔ اسی سلسلے میں جون 1878 کو روس سے ایک بن بُلایا سفارتی مشن کابل بھیجا گیا۔ روسی سفارتی مشن 22 جولائی 1878 کو کابل پہنچا، اور 14 اگست کو انگریزوں نے مطالبہ کیا کہ امیر شیر علی خان ایک برطانوی مشن کو بھی قبول کرے۔ امیر شیرعلی خان نے نہ صرف برطانوی مطالبے کو مسترد کیا بلکہ دھمکی دی کہ اگر برطانوی مشن نے افغانستان آنے کی کوشش کی تو اسے زبردستی رکوا دیا جائے گا۔ اس کے باوجود برطانوی وائسرائے لارڈ لیٹن نے چمبرلین کی قیادت میں ایک سفارتی مشن کو ستمبر 1878 میں کابل کے لئے روانہ کیا، لیکن سفارتی مشن کو خیبر پاس سے ہی واپس کر دیا گیا۔

جواب میں انگریز نے 50 ہزار فوجیوں کے ساتھ تین اطراف سے افغانستان پرحملہ کیا۔ اِس جنگ کو دوسری انگریز افغان جنگ کہا جاتا ہے۔ امیر شیر علی خان نے روس سے مدد کی اپیل کی لیکن روسی مدد کرنے نہیں پہنچے۔ امیر شیر علی خان نے کابل چھوڑ کر مزار شریف کا رخ کیا جہاں وہ 21 فروری 1879 کو فوت ہو گئے۔ انگریز نے افغانستان کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کیا۔ بالاخر امیر شیرعلی خان کا بیٹا محمد یعقوب خان مجبور ہوا کہ 26 مئی 1879 کو انگریز کے ساتھ کابل سے 110 کلومیٹر دور گندمک کے مقام پر معاہدہ گندمک دستخط کیے۔ اس کی رو سے ساری انگریز افواج کو افغانستان چھوڑنا تھا اور افغان صرف اندرونی ملک پر حکومت کر سکتےتھے  جب کہ بیرونی سیاست انگریز کے قبضے میں چلے گئی۔

انگریز نے وعدہ کیا کہ بیرونی جارحیت سے افغانستان کا دفاع کیا جائے گا۔ اس معاہدے کے باوجود انگریزوں نے 3 ستمبر 1879 کو کابل پر دوبارہ حملہ کیا اور 6 ستمبر 1879 کو کابل ایک دفعہ پھر انگریزوں کے ہاتھ میں چلا گیا۔ دو دن کے بعد غازی محمد جان وردگ کی قیادت میں دس ہزار افغانوں نے کابل میں انگریزوں پر حملہ کیا لیکن انگریز اس محاصرے کو توڑنے میں کامیاب ہو گئے۔



اس کے بعد انگریز نے کوشش کی کہ افغانستان کو دو امیروں کے درمیان تقسیم کر کے خود افغانستان سے نکلے، لیکن ان دو امیروں میں سے ایک امیر محمد ایوب خان نے جو ہرات کا گورنر تھا اپنی بھاری فوج لے کر قندھار پر حملہ کیا۔ امیر محمد ایوب خان نے قندھار سے ہوتے ہوئے ہلمند میں بھی انگریز فوج پر حملہ کیا اور میوند کے مقام پر انگریز کو دندان شکن شکست دی۔ انگریز جلد بازی میں افغانستان کو عبدالرحمٰن کے حوالے کر کے افغانستان سے نکل گئے۔ عبدالرحمٰن افغانستان کا امیر بنا۔ امیر عبدالرحمٰن نے انگریزوں کے ساتھ معاہدہ گندمک پھر سے تسلیم کر لیا اور بعد میں ڈیورنڈ کا معاہدہ بھی کیا۔

غالباً 20 فروری 1919 میں شاہ غازی امان اللہ خان کے والد امیر حبیب اللہ خان والی افغانستان نے لغمان کے قلعہ گوش میں پڑاؤ ڈال رکھا تھا کہ اسے گولی کا نشانہ بنایا گیا. بھائی نصر اللہ خان نے بے جا بادشاہت کا اعلان کیا مگر فوج کی امداد حبیب اللہ خان کے تیسرے بیٹے امان اللہ خان کو حاصل تھی۔



شاہ افغانستان غازی امان اللہ نے یکم مارچ 1919 کو تخت نشین ہوتے ہی افغانستان کو کسی بھی پہلوان، طاقت کے زیر سایہ بفر سٹیٹ رکھنے کے بجائے مکمل خودمختاری کا اعلان کر دیا۔ یہ اعلان برطانیہ (جوکہ غلام برصغیر میں آقا تھی) نے اعلانِ جنگ سمجھا۔ 6 مئی 1919 کو افغانستان اور انگریز کے درمیان جنگ چھیڑ گئی جِس کو تیسری انگریز افغان جنگ کہا جاتا ہے۔ درہ خیبر کے پاس ڈاکہ کے مقام اور چمن غالباً سپین بولاک (جوکہ اب سپین بولدک کے نام سے مشہور ہے) کے افغانی قلعہ پر قبضہ کر لیا گیا۔ کابل پر طیارے سے بمباری شروع کی گئی مگر آخر کار افغانی عوام اور جنوبی سرحدات کا سپہ سالار محمد نادر خان سے شکست خوردہ ہو کر انگریز افواج پسپا ہو گئیں۔ یہ جنگ 8 اگست 1919 کو افغانستان کی کامیابی پر اختتام پذیر ہوئی اور امان اللہ خان کو غازی کا لقب دیا گیا۔ 19 اگست کو غازی امان اللہ خان نے افغانستان کی خودمختاری اور ہر قسم کے بیرونی دباؤ سے آزادی کا اعلان کیا جس کو اُس وقت کے غاصب اور سامراج نے مان لیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دِن یعنی 19 اگست کو دنیا بھر کے افغانوں کی جانب سے یومِ استقلال منایا جاتا ہے۔



جولائی 1919 میں سب سے پہلے سوویت یونین نے افغانستان کا استقلال تسلیم کیا تھا۔ برٹش انڈیا سے طویل گفت و شنید کے بعد  19 اگست 1919 کے راولپنڈی معاہدے کے تحت برطانوی حکومت نے بھی باضابطہ طورپر افغانستان کی آزادی تسلیم کی مگر شمالی سرحدات پر 1922 تک جب کہ جنوبی سرحدات پر 1924 تک پھر بھی گاہے گاہے کشیدگی بڑھتی رہی۔ اگرچہ آج بھی افغانستان استقلال سے پہلے کی طرح بین الاقوامی طاقتوں کے شکنجے میں ہے اور پوری طرح آزاد نہیں ہے لیکن وہ دِن ضرور آئے گا جب افغانستان غازی امان اللہ کے آزاد افغانستان کی شکل میں ایک بار پھر آزاد اور خود مختار ریاست بنے گا اور غازی امان اللہ کے ادھورے ارمانوں کو پورا کرے گا۔
مزیدخبریں