چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ اور لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد فضل کریم نے سزائے موت سنائی جبکہ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس نذر اللہ اکبر نے اختلافی نوٹ لکھتے ہوئے کہا کہ استغاثہ کی ٹیم غداری کا مقدمہ ثابت نہیں کرسکی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ جنرل پرویز مشرف نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا، ان پر آئین پامال کرنے کا جرم ثابت ہوتا ہے اور وہ مجرم ہیں، لہذا پرویز مشرف کو سزائے موت دی جائے۔
کیس کا تفصیلی تحریری فیصلہ 169 صفحات پر مشتمل ہے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ اس وقت کی کورکمانڈرز کمیٹی کے علاوہ تمام دیگر وردی والے افسران جنہوں نے انہیں ہر وقت تحفظ فراہم کیا وہ ملزم کے اعمال اور اقدام میں مکمل اور برابر کے شریک ہیں۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ 'ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ مفرور/مجرم کو پکڑنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں اور اسے یقینی بنائیں کہ انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے اور اگر وہ وفات پاجاتے ہیں تو ان کی لاش کو گھسیٹ کر اسلام آباد میں ڈی چوک پر لایا جائے اور 3 دن کے لیے لٹکایا جائے'۔
پس منظر
3 نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے آئین معطل اور میڈیا پر پابندی عائد کردی تھی جبکہ چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری سمیت سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس کے جج صاحبان کو گھروں میں نظربند کر دیا تھا۔
آرٹیکل 6
پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت آئین کو توڑنا اور اس کام میں مدد کرنا ریاست سے ’سنگین بغاوت‘ کا جرم ہے جس کی سزا پھانسی ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے 26 جون 2013 کو انکوائری کیلیے وزارت داخلہ کو خط لکھا جس پر وزارت داخلہ نے ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جس نے 16 نومبر 2013 کو رپورٹ جمع کرائی، لا ڈویژن کی مشاورت کے بعد 13 دسمبر 2013 کو پرویز مشرف کے خلاف شکایت درج کرائی گئی جس میں ان کے خلاف سب سے سنگین جرم متعدد مواقع پر آئین معطل کرنا بتایا گیا۔
پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کا مقدمہ 6 سال سے زائد چلا۔ وہ صرف ایک دفعہ عدالت میں پیش ہوئے اور پھر ملک سے باہر چلے گئے۔
خصوصی عدالت کی متعدد دفعہ تشکیل نو کی گئی اور ججز بدلتے رہے۔ جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس طاہرہ صفدر سمیت 7 ججز نے مقدمہ سنا۔