'40 صوبائی سیٹوں پر ہمارا حق ہے' ق لیگ کا پی ٹی آئی سے بڑا مطالبہ

'40 صوبائی سیٹوں پر ہمارا حق ہے' ق لیگ کا پی ٹی آئی سے بڑا مطالبہ
یہ وہ سوال ہے جو پچھلے آٹھ ماہ میں بہت بار اٹھایا گیا، اپریل میں عمران خان کی وفاقی حکومت کے خاتمے سے لیکر پنجاب اسمبلی کی ممکنہ تحلیل تک، گجرات کے چوہدری برادران پاکستانی سیاست کے گیم چینجرز کے طور پر سامنے آئے۔ 2008 کے بعد سے سیاسی طور پر سائڈلائین ہوئے چوہدری برادران کی سیاست میں نئی اننگز 2018 کے انتخابات میں عمران خان کے اتحادی کے طور پر دوبارہ شروع ہوئی۔ پنجاب اسمبلی میں ان کے ووٹوں کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں پنجاب اسمبلی کی سپیکرشپ جبکہ وفاقی حکومت میں وزارتیں بھی دی گئیں۔

لیکن اپریل 2022 میں جب عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی، تو صدیوں سے ایک ساتھ چلنے والا گجرات کا چوہدری خاندان بھی دو حصوں میں بٹ گیا۔ ایک حصہ چوہدری شجاعت حسین کی سربراہی میں پی ڈی ایم کی طرف چلا گیا جبکہ دوسرے نے چوہدری پرویز الہی کے زیر نگرانی پاکستان تحریک انصاف کا اتحادی بننا پسند کیا۔ اسکے بدلے میں چوہدری پرویز الہی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ مل گئی۔

قریبا 15 سالہ وقفے کے بعد وزیر اعلیٰ بننے والے پرویز الٰہی اس عہدے کو چھوڑنے میں کوئی جلدی نہیں کرنا چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ نومبر کے آخری ہفتے میں عمران خان کی جانب سے اسمبلیوں کی تحلیل کے اعلان کے باوجود تاحال پنجاب اسمبلی تحلیل نہیں ہو پائی۔

پرویز الٰہی اور ان کے فرزند مونس الٰہی اپنی تمام کر کوششوں کے باوجود عمران خان کو اس بات پر راضی نہیں کر پائے کہ وہ مارچ 2023 تک اسمبلیاں نہ تحلیل کریں۔ اپنے پہلے مشن میں ناکامی کے بعد، اب مسلم لیگ ق کے چوہدری پرویز الہی گروپ کا نیا لائحہ عمل کیا ہے؟ ایک طرف تو چوہدری پرویز الہی ٹی وی انٹرویوز میں پاکستان تحریک انصاف کو 'احسان فراموش' کہتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف ان کے فرزند عمران خان کو اپنا لیڈر بتاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

صبح شام کی ان سیاسی قلابازیوں کو دیکھ کر ہر کسی کے ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ 'چوہدری آخر چاہتے کیا ہیں؟'۔

نیا دور سے بات کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ 'مسئلہ چوہدریوں کی اسٹیبلشمنٹ سے قربت کی وجہ سے بنتا ہے۔ ہم نے پچھلے آٹھ ماہ میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی ہے جسے عوام میں بہت مقبولیت ملی ہے جبکہ چوہدری صاحبان چاہتے ہیں کہ ہم اپنی یہ روش تبدیل کر لیں، لیکن ایسا ممکن نہیں ہے' ۔

'وہ یہ یقین دہانی بھی چاہتے ہیں کہ ہم انہیں پھر سے وزیراعلیٰ بنائیں گے لیکن ہمارے خیال میں ہمیں مستقبل میں کسی سیاسی اتحادی کی ضرورت نہیں ہو گی۔ عمران خان اکیلا پورے ملک سے اکثریت لینے کی پوزیشن میں ہے ایسے میں ہمیں چوہدری صاحبان سے کوئی لانگ ٹرم وعدے کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے'۔

نیا دور  کی جانب سے کئے گئے ممکنہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے سوال پر سابق وفاقی وزیر نے کہا، ' پی ٹی آئی اپنی جیتی ہوئی سیٹوں پر کسی صورت کوئی ایڈجسٹمنٹ نہیں کر رہی، البتہ دس بارہ صوبائی سیٹوں پر جہاں 2018 میں مسلم لیگ نون جیتی تھی، ہم ایڈجسمنٹ کے لئے تیار ہیں۔ اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ ہم انکے ساتھ 40 یا 50 سیٹوں پر ایڈجسٹمنٹ کریں گے تو یہ انکی بھول ہے۔پھر بھلے وہ 100 انٹرویو اور دے لیں، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا'۔

نیا دور کے رابطہ کرنے پر مسلم لیگ ق کے قریبی ذرائع نے بتایا کہ 'ہمارا پی ٹی آئی سے اتحاد ہے اور مستقبل میں بھی رہے گا۔ سیاسی اتحادیوں میں اونچ نیچ چلتی رہتی ہے۔ہم نے اگلے سیٹ اپ میں وزارت اعلیٰ کی کرسی کی گارنٹی نہیں مانگی البتہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملے پر ہم نے بالکل بات کی ہے۔ ہمارے خیال میں 40 صوبائی سیٹوں پر ہمارا حق بنتا ہے، اور اس بات پر پی ٹی آئی کے سینئر رہنما بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ بس پی ٹی آئی کے کچھ لوگ ایسے ہیں جو ہمارے اتحاد کو چلنے نہیں دینا چاہتے اور وہی عمران خان کو ہمارے خلاف اکسارہے ہیں'۔