'انتظار کرو اور دیکھو'، آصف زرداری کا شہباز شریف کو مشورہ

'انتظار کرو اور دیکھو'، آصف زرداری کا شہباز شریف کو مشورہ
پنجاب میں سیاسی بساط پر فتح حاصل کرنے کی جدوجہد جاری ہے۔ فریقین کی سوچ بچار اور ملاقاتوں کے دور بھی چل رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف چیئرمین عمران خان کی جانب سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان سے اگلے روز ہی وزیراعلیٰ پرویز الٰہی نے ان سے باقاٰعدہ ناراضگی کا اظہار کر دیا۔ ایسے میں وفاق میں حکمران اتحادی جماعتوں کے لئے صورتحال محظوظ کن ہو گئی ہے۔ جہاں اگلے لائحہ عمل کی فکر لاحق ہے وہیں موجودہ صورتحال کے پیش نظر پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے "انتظار کرو اور دیکھو " کی پالیسی اپنانے کا مشورہ دے دیا۔

گزشتہ شام سابق صدر  آصف زرداری  نے وزیراعظم شہبازشریف سے ان کی ماڈل ٹاون کی رہائشگاہ پر ملاقات کی جس میں انہوں نے شہباز شریف کو مشورہ دیا کہ آج کے دن انتظار کرو اور دیکھو۔

ذرائع کے مطابق آج وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اہم اجلاس ہوا جس میں ن لیگ کے علاوہ اتحادی جماعتوں کے رہنما بھی شریک تھے۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے حالیہ انٹرویو میں دیا گیا بیان موضوع بحث بنا رہا کیونکہ ان  کے انٹرویو کے بعد پنجاب کی سیاسی صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی ہے۔

اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کے خلاف ابھی تحریک عدم اعتماد پیش نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

اجلاس کے بعد وزیراعظم شہبازشریف چوہدری شجاعت حسین کی رہائشگاہ پہنچے اور ان سے ایک گھنٹہ طویل ملاقات کی اور عمران خان کےاعلان پر حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ چوہدری شجاعت حسین نے پرویز الہٰی سے بات کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ آئندہ 48 گھنٹوں کو  ملکی سیاست میں اہم ترین قرار دیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق پرویزالہٰی تحریک انصاف کے ساتھ اپنی پوزیشن واضح کریں گے تو اتحادی جماعتیں غوروخوض کرسکتی ہیں۔

دوسری جانب وزیراعظم سے ملاقات کے بعد  چوہدری شجاعت حسین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پرویزالٰہی اگر فیصلہ کرتے ہیں تو چار پانچ ماہ نکال سکتے ہیں مجھے عام انتخابات جلد نظر نہیں آ رہے ۔ کچھ لوگ اسمبلیاں توڑنے اور کچھ بچانے پر تلے ہیں۔

چوہدری شجاعت نے کہا کہ پرویزالٰہی کے لیے گنجائش کا مسئلہ نہیں مسئلہ تو سیاسی جماعتوں کا ہے۔ مستقبل کا سیاسی لائحہ عمل مل بیٹھ کر طے کریں گے، پنجاب میں اچھا ہی ہونے جا رہا ہے، پیپلز پارٹی اور ن لیگ عدم اعتماد یا اعتماد کے ووٹ دونوں آپشن پر غور کررہے ہیں۔ ایک عدم اعتماد اور دوسری اعتماد کے ووٹ کی تحریک لانا چاہتی ہے۔ جن کے پاس عدم اعتماد کے ووٹ پورے نہیں وہ اپنا نمبر پورا کریں گے۔ جس کے پاس ووٹ پورے ہوئے وہ بچ جائے گا۔