اٹارنی جنرل کے دلائل پر ججز سخت برہم اور بُلند آواز میں اٹارنی جنرل سے مُکالمہ

12:34 PM, 19 Feb, 2020

اسد علی طور
9 بج کر 25 منٹ پر کورٹ روم نمبر ون میں داخل ہوا تو وہی مانوس چہرے کمرہِ عدالت میں نظر آئے۔ درخواست گُزار جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی قانونی ٹیم منیر اے ملک اور صلاح الدین دائیں طرف جبکہ اٹارنی جنرل، وزیرِ قانون فروغ نسیم، اے آر یو کے سربراہ بیرسٹر شہزاد اکبر اور ملیکا بُخاری بنچ کے روبرو بائیں طرف نشستوں پر بیٹھے تھے۔ جب سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے اپنے خلاف ریفرنس کو چیلنج کرنے پر فُل کورٹ بنا ہے، سوموار منگل اور بُدھ کے روز دِن 11 بج کر 30 منٹ سماعت کے لئے طے کر دیے گئے تھے۔ لیکن آج فُل کورٹ نے مُقررہ وقت پر سماعت شروع نہیں کی۔ کمرہِ عدالت میں فُل کورٹ کے جمع نہ ہونے پر بے چینی بڑھنی شروع ہوئی تو 11 بج کر 50 منٹ پر ججز کے لئے مُختص دروازے سے دس دربان ہجوم کی شکل میں کمرہِ عدالت میں داخل ہوئے جِن میں سے عابد حسین نامی دربان نے آواز لگائی کہ کورٹ آ گئی ہے۔ کمرہِ عدالت میں موجود ہر فرد ججز کی تعظیم میں کھڑا ہوا جب تک کہ ججز بیٹھ نہ گئے اور چار دربان دائیں طرف سے گھوم کر جب کہ چھ دربان بائیں طرف سے گھوم کر ہمارے سامنے آ کر بیٹھ گئے۔ اب اٹارنی جنرل اپنی نشست سے اُٹھ کر وُکلا کے دلائل کے لئے مُختص روسٹرم پر آ گئے۔



یہ بھی پڑھیے: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں حکومتی دلائل: اٹارنی جنرل نے فل کورٹ کو برہم کر دیا







اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ جِن جائیدادوں کا کیس ہے وہ تسلیم شُدہ ہیں اور ریفرنس سُپریم کورٹ کے ایک جج سے متعلق ہے تو سپریم جوڈیشل کونس پر فرض ہے کہ وہ ریفرنس میں موجود معلومات کو دیکھے۔ اٹارنی جنرل کی بات جاری تھی کہ فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے اُنہیں ٹوک کر کہا، اِس سے پہلے کہ آپ الفاظ کی تشریح میں چلے جائیں، ہمیں بتائیں کہ کیس ہے کیا؟ جج (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) نے کِس قانون کی خلاف ورزی کی ہے؟ اگر ٹیکس ریٹرن کا کیس ہے تو کہاں خلاف ورزی ہوئی؟ اِس موقع پر جسٹس عُمر عطا بندیال کی آواز بُلند ہو گئی اور انہوں نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ بجائے اِدھر اُدھر جائیں آج ہم کیس پر فوکس رکھیں۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کیس جج کی جائیدادوں سے متعلق ہے اور وہ انہوں نے ویلتھ سٹیٹمنٹ میں ظاہر نہیں کی تھیں۔

فُل کورٹ کے سربراہ نے دوبارہ سوال کیا کہ آپ بتائیں کہ خلاف ورزی کہاں ہوئی؟ اٹارنی جنرل نے جسٹس عُمر عطا بندیال کو بظاہر بیک فُٹ پر ڈالنے کے لئے جواب دیا کہ آپ ابھی اتنا آگے جمپ مت کریں اور اُنہیں موقع دیں وہ اِس طرف بھی آئیں گے۔

اِس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے مُداخلت کی اور اٹارنی جنرل کو مُخاطب کر کے بولے کہ بنچ کے معزز سربراہ بالکل جمپ نہیں کر رہے بلکہ اُن کا سوال بہت جائز اور متعلقہ ہے۔ اب جسٹس یحییٰ آفریدی بھی بولے کہ اٹارنی جنرل آپ ہمیں ریفرنس سے پڑھ کر بتائیں کہ جائیدادیں ہیں اور کیا خلاف ورزی ہے؟ اٹارنی جنرل نے فوری جواب دیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنی اہلیہ کی جائیدادیں ظاہر کرنے میں ناکام رہے اور یہ جائیدادیں کِن ذرائع سے خریدی گئیں وہ بھی نامعلوم ہیں۔



اٹارنی جنرل نے اپنے نُکتے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ تمام معاملہ تحقیقات کا مُتقاضی ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ اگر صدر کے ریفرنس میں الزامات یہ ہیں تو آپ کو بہت واضح بات کرنی ہوگی۔

جسٹس یحییٰ آفریدی خاموش ہوئے تو اُن کے ساتھ بیٹھے جسٹس منصور علی شاہ نے بھی اپنا سوال شامل کر دیا کہ آپ ہمیں بتائیں کہ جِس خط سے یہ معاملہ سامنے آیا وہ خط آنے کے بعد آپ نے کیا اقدامات اُٹھائے اور کِس قانون کے تحت وہ اقدامات لیے گئے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے سوال کے اختتام پر ریمارکس دیے کہ دراصل یہی سوال اِس کیس کا دِل ہیں۔

اٹارنی جنرل کیپٹن (ر) انور منصور خان نے جواب دیا کہ وہ اِن سوالات پر معزز جج کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں گے۔ اِس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قانونی ٹیم کو بہت ٹف ٹائم دینے والے جسٹس مُنیب اختر نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ اگر جج اپنی جائیدادیں ویلتھ سٹیٹمنٹ میں ظاہر کر دیتا تو کیا یہ ریفرنس بنتا؟ اٹارنی جنرل نے نفی میں جواب دیا تو جسٹس مُنیب اختر نے ریمارکس دیے کہ یہ تو ٹیکس قوانین کی شِق 116 کی خلاف ورزی کا معاملہ ہے۔



یہ بھی پڑھیے: مشرف کی سزائے موت، اور عوام کا مورال







جسٹس مقبول باقر نے جسٹس مُنیب اختر کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اٹارنی جنرل سے سوال پوچھا کہ آپ ہمیں بتائیں ٹیکس فائل کرتے وقت خلاف ورزی کہاں ہوئی تھی۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ مِس کنڈکٹ کے مُرتکب ہوئے۔

اِس موقع پر جسٹس سجاد علی شاہ اٹارنی جنرل کے جوابات اور دلائل پر بےچینی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ پھر پہلے بتائیں کہ مِس کنڈکٹ کہاں ہوا؟ جسٹس سجاد علی  شاہ نے مزید ریمارکس دیے کہ میں اِس کے بغیر مُطمئن نہیں ہوں گا کہ مِس کنڈکٹ کہاں ہوا۔

اب اٹارنی جنرل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر سنگین الزام لگایا کہ یہ مِس کنڈکٹ جائیدادیں ظاہر نہ کرنے اور منی لانڈرنگ کا ہے۔ جی ہاں، اٹارنی جنرل کیپٹن (ر) انور منصور خان سُپریم کورٹ کے ججز کی سنیارٹی لِسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر منی لانڈرنگ کا الزام لگا رہے تھے۔

اِس مکالمہ کے بعد اٹارنی جنرل نے ایک جج کا کنڈکٹ کیسا ہونا چاہیے پر منظور قادر کیس کا فیصلہ پڑھنا شروع کر دیا اور فُل کورٹ کے سامنے مؤقف اپنایا کہ آئین کا آرٹیکل 211 کہتا ہے کہ اگر مِس کنڈکٹ پر کسی جج کو سُپریم جوڈیشل کونسل شوکاز نوٹس جاری کر دے تو پھر کوئی دوسری عدالت حرکت میں نہیں آ سکتی۔ منظور قادر کیس کے مخصوص پیراگراف پڑھنے کے بعد اٹارنی جنرل نے بھارتی عدالت کے روی چندرا کیس کے فیصلہ کو پڑھنا شروع کر دیا جو کسی بھی جج کی عوامی ساکھ سے متعلق تھا۔

فُل کورٹ میں سے جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس منظور ملک اٹارنی جنرل کی طرف سے فراہم کردہ فیصلے کی کاپی نہیں پڑھ رہے تھے۔ اٹارنی جنرل کیپٹن (ر) انور منصور خان بھارتی عدالت کا فیصلہ پڑھتے جا رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے بھی فیصلہ کی کاپی کا مطالعہ ترک کر کے اٹارنی جنرل کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔



یہ بھی پڑھیے: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر بڑا حملہ پسپا







اب فُل کورٹ کے آدھے ججز یعنی کے پانچ ججز اٹارنی جنرل کو صرف سُن رہے تھے لیکن اُن کی فراہم کردہ کاپی نہیں پڑھ رہے تھے۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ ججز اٹارنی جنرل کے دلائل سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں جو بعد ازاں درُست ثابت ہوا۔

بھارتی عدالت کا فیصلہ مُکمل ہوا تو اٹارنی جنرل نے کینیڈین عدالت کا فیصلہ فُل کورٹ کے اراکین ججز میں عدالتی عملہ کے ذریعے تقسیم کروایا اور پھر وہ فیصلہ پڑھنا شروع کر دیا۔ کینڈین کورٹ کا فیصلہ جج کو فیصلہ کرتے ہوئے کِس کنڈکٹ کا مُظاہرہ کرنا چاہیے اور قانون کا اطلاق کِس طرح کرنا چاہیے سے مُتعلق بتا رہا تھا۔

جسٹس منظور ملک اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل یہ فیصلہ بھی نہیں پڑھ رہے تھے اور پھر جسٹس منصور علی شاہ نے سر اُٹھا کر جسٹس منظور ملک کی طرف دیکھ کر کُچھ کہا جِس پر جسٹس منظور ملک نے مُسکرا کو اُن کو جواب دیا۔ پھر جسٹس منظور ملک اپنے بائیں ہاتھ پر موجود جسٹس مظہر عالم خان کے قریب ہوکر اُن سے سرگوشیاں کرنے لگے۔

اِس دوران اٹارنی جنرل کیپٹن (ر) انور منصور خان کینیڈین عدالت کا فیصلہ پڑھتے جا رہے تھے۔ ججز کی اٹارنی جنرل کے دلائل میں عدم دِلچپسی بڑھتی جا رہی تھی کہ جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل کو ٹوک کر پوچھا کہ مِسٹر اٹارنی جنرل کیا آپ ہمیں بتائیں گے یہ دلائل کِس بات سے متعلق ہیں؟

اب جسٹس منصور علی شاہ بھی بولے کہ مِسٹر اٹارنی جنرل آپ ہمیں مِس کنڈکٹ پر لٹریچر پڑھا رہے ہیں لیکن یہ نہیں بتا رہے کہ جج سے مِس کنڈکٹ کہاں ہوا تھا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنی بیزاری ظاہر کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اِس طرح کے دلائل کو ہم کِس طرح سراہ سکتے ہیں۔



اٹارنی جنرل نے جسٹس منصور علی شاہ کی آبزرویشن کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے جواب دیا کہ یہ میرا دلائل دینے کا طریقہ کار ہے تو کیا عدالت مُجھے میرے لائحہ عمل کے مُطابق دلائل کی اجازت دے گی؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کندھے اُچکتے ہوئے کہا ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی۔

اٹارنی جنرل نے اِس موقع پر فُل کورٹ کو بتانے کی کوشش کی کہ اُن کے اِن تمام دلائل کا مقصد ججز کو یہ سمجھانا ہے کہ جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سُپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ہو گیا اور سُپریم جوڈیشل کونسل نے اپنی ابتدائی تحقیقات کے بعد ایک ابتدائی نوٹس بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو بھجوا دیا تو جسٹس عیسیٰ نے سُپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ کار چیلنج نہیں کیا۔

پھر جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ابتدائی جواب کے بعد اُن کو باقاعدہ شوکاز نوٹس جاری کیا گیا تو اُس کا بھی انہوں نے جواب دیا اور عدالتی دائرہ کار چیلنج نہیں کیا۔ اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ سُپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے حقائق موجود تھے۔ اب جسٹس فیصل عرب بولے اور انہوں نے اٹارنی جنرل کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ مُبینہ حقائق تھے کیونکہ ابھی اُن کا ثابت ہونا باقی ہے۔ اٹارنی جنرل نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ بالکل وہ مُبینہ حقائق ایک تاثر دے رہے تھے جِس پر انکوائری کا سُپریم جوڈیشل کونسل کو کہا گیا۔

اٹارنی جنرل نے فُل کورٹ کے سامنے کہا کہ سُپریم جوڈیشل کونسل کی انکوائری سے قبل ایگزیکٹو نے خود کوئی انکوائری نہیں کی۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ہم نے تو سُپریم جوڈیشل کونسل سے کہا کہ آپ خود تحقیقات کروا لیں اور جِس بھی نتیجہ پر پہنچیں اُس سے صدرِ مُملکت کو آگاہ کر دیں۔



یہ بھی پڑھیے: مُنیر اے ملک کے دلائل پر تناؤ کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کی سماعت کرنے والا لارجر بینچ کیسے ٹوٹا؟ 







اٹارنی جنرل نے اِس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قانونی ٹیم پر الزام لگایا کہ انہوں نے سُپریم جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کا الزام لگا کر ریفرنس کو سُپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے اٹارنی جنرل کی بات کو فوری رد کر دیا اور ریمارکس دئیے کہ بالکل ایسا نہیں ہے، مُنیر اے ملک ایڈووکیٹ نے خود کو صرف ریفرنس فائل کرنے سے قبل اپنائے گئے طریقہ کار تک محدود رکھا ہے اور کسی بھی موقع پر سُپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر اعتراض نہیں کیا۔

اٹارنی جنرل نے وضاحت کی کہ میں فُل کورٹ کے دائرہ کار کی بات کر رہا ہوں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے دوبارہ سوال پوچھا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ درخواست ہمارے دائرہ سماعت میں نہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی بالکل میں یہی کہہ رہا ہوں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے شدید ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اگر وفاق کا کیس ہمارے دائرہ سماعت کا ہے تو اٹارنی جنرل اُس پر بات کریں، دو دِن سے ججز کو کنڈکٹ کیوں پڑھا رہے ہیں؟

جسٹس سجاد علی شاہ خاموش ہوئے تو فُل کورٹ کے سربراہ نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ وہ فُل کورٹ کو 2010 میں عدالت کے دائرہ سماعت پر موجود فیصلہ سے اختلاف کا کہہ رہے ہیں؟ اور فُل کورٹ کِس بُنیاد پر ایسا کر سکتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ نہیں میں 2010 کے فیصلہ سے اختلاف کرنے کی استدعا نہیں کررہا بلکہ فُل کورٹ کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ 2010 میں سُپریم کورٹ کے سامنے موجود معاملہ سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کیس مُختلف ہے۔

جسٹس عُمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے فوری سوال کیا کہ اگر آپ نے اِن دونوں کیسز میں فرق سمجھانا ہے تو پھر ریفرنس پر بات کرنا ہوگی جو اٹارنی جنرل نہیں کر رہے ہیں۔ فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کے دلائل کے طریقہ کار پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ آپ کا کیس ہے کہ ایک جج کے اہلخانہ کی بیرونِ مُلک جائیدادیں ہے لیکن جِن اہلخانہ کے نام پر وہ جائیدادیں ہیں آپ اُن سے تو پوچھ نہیں رہے اور جج کے پیچھے چلے گئے ہیں۔

جسٹس عُمر عطا بندیال نے انتہائی سخت ریمارکس دیتے ہوئے اٹارنی جنرل سے بُلند آواز میں پوچھا کہ آپ لوگ جج پر ایف آئی آر کاٹ رہے تھے یا ریفرنس فائل کررہے تھے؟ کیونکہ ریفرنس میں کوئی ٹھوس مواد تو ہونا چاہیے تھا۔

جسٹس عُمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ کیا بے نامی پر پاکستان میں کوئی قانون ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ہاں 2018 میں ایسا قانون بنایا گیا تھا۔ اب جسٹس عُمر عطا بندیال دوبارہ بولے کہ آپ ہمیں بتائیں گے تو ہم دیکھیں گا نا۔

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے بھی سوال اُٹھایا کہ مِسٹر اٹارنی جنرل آپ نے ٹیکس قوانین شِق 163 پڑھ رکھی ہے کہ وہ کیا کہتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہمارا کیس ہے تین جائیدادیں کیسے لیں؟ اور پیسہ کیسے باہر گیا؟ جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل کو سمجھایا کہ آپ نے جو قانون بنایا ہوا ہے اُس کو تو پڑھ لیں، اُس سے رجوع کریں وہ اِس بارے میں کیا کہتا ہے۔



جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل کو مزید کہا کہ آپ سب کُچھ پڑھ رہے ہیں لیکن جو سوال ہم پوچھ رہے ہیں اُس طرف نہیں آ رہے۔ اٹارنی جنرل نے دھیمے سے لہجے میں جواب دیا کہ وہ پڑھنے والے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے طنزیہ انداز میں ریمارکس دیے کہ چلیں میں انتظار کر رہا ہوں۔

فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ایک بار پھر مُداخلت کی اور اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ کا سارا کیس ایسٹ ریکوری یونٹ کی تحقیقات پر بنا ہوا ہے تو آپ کو ایسٹ ریکوری یونٹ والوں نے یہ نہیں بتایا کہ خلاف ورزی کہاں ہوئی؟ اِس موقع پر دس رُکنی فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال کی آواز ایک بار پھر بُلند ہو گئی اور انہوں نے اٹارنی جنرل کے دلائل پر شدید ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ ہم چھ ماہ سے اِس کیس کی تیاری کر رہے ہیں لیکن اٹارنی جنرل ہماری تیاری کے قریب قریب تیاری کر کے بھی نہیں آئے اور یہ بات جسٹس عُمر عطا بندیال نے تین دفع دہرائی کہ اٹارنی جنرل بغیر تیاری کے دلائل دے کر عدالت کا وقت ضائع کر رہے ہیں۔

جسٹس عُمر عطا بندیال نے مزید ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل کل آپ اتنی بڑی بات کہہ گئے جو اِس بینچ میں موجود ججز سمیت اِس ادارے سے مُنسلک ہر فرد کے لئے بہت تشویش کا باعث ہے اور آج بھی آپ کمال خوبصورتی سے ہمارا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ آج کی سماعت یہی کافی ہے، اب ہم آپ کو سوموار کو سُنیں گے اور آپ عدالتی حُکم پر عمل کرتے ہوئے ہمیں تیاری کے ساتھ دلائل دیں گے۔

وفاق کے نمائندہ اٹارنی جنرل کیپٹن (ر) انور منصور خان عدالت کی منت سماجت کر رہے تھے کہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے اُنہیں نظر انداز کر کے آرڈر لِکھوانا شروع کر دیا۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے آرڈر لِکھواتے ہوئے ایک موقع پر لکھوایا کہ معزز اٹارنی جنرل اور پھر خود ہی آرڈر نوٹ کرنے والے کو روک کر کہا معزز ہٹا دیں صرف اٹارنی جنرل لکھیں۔

فُل کورٹ نے اپنے تحریری حُکم نامہ میں اٹارنی جنرل کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنے دلائل اگلی سماعت سے قبل تحریری طور پر جمع کروائیں گے۔ فُل کورٹ نے اٹارنی جنرل کو مزید حُکم دیا ہے کہ وہ اپنے منگل کے الزام کا کوئی مواد دیں یا تحریری معافی نامہ جمع کروائیں۔

کمرہِ عدالت سے باہر نکلتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ کل ایک سینیئر حکومتی عہدیدار سے جو گفتگو ہوئی وہ آج رقم کر دینی چاہیے کیونکہ کل تو جسٹس مقبول باقر نے رپورٹ کرنے سے منع کیا تھا لیکن آج مُختلف ہے۔ منگل کی سماعت کے احاطہ عدالت سے باہر نکلا تو ایک سینیئر حکومتی عہدیدار پارکنگ کی طرف چلتے جا رہے تھے۔ میں نے پارکنگ میں اُن کو روک کر پوچھا کہ آپ کو نہیں لگتا آج اٹارنی جنرل نے الزام لگا کر فُل کورٹ کو پہلے ہی برہم کر دیا ہے جو حکومت کے لئے کوئی اچھی حِکمتِ عملی معلوم نہیں ہوتی؟

حکومتی عہدایدار جِس کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی پیٹیشن میں فریق بھی بنا رکھا ہے نے مُجھے پلٹ کر جواب دیا کہ تو جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قانونی ٹیم نے ججز کو ٹارگٹ کیا تو وہ ٹھیک تھا؟ میں نے سینیئر ترین حکومتی عہدیدار سے اُن کا جواب سمجھنے کے لئے مزید پوچھا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر کُچھ معزز ججز پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قانونی ٹیم نے اعتراض کیا تو اب کُچھ ججز کو حکومت بھی ٹارگٹ کرے گی؟

حکومتی ذریعے نے تردید کرنے کی بجائے اُلٹا مُجھ سے پوچھ لیا کہ آپ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قانونی حِکمتِ عملی کے بجائے حکومتی قانونی حِکمتِ عملی پر کیوں غور کر رہے ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ بالکل ایسا نہیں ہے جب جسٹس عیسیٰ کی قانون ٹیم دلائل دے رہی تھی تو ہمارا فوکس اُن پر تھا آج آپ نے دلائل شروع کیے تو اب آپ پر ہوگا۔



میں نے اِس سینیئر حکومتی عہدیدار سے جو اب اپنی گاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے، آخری سوال پوچھا کہ اٹارنی جنرل نے فُل کورٹ پر اتنا بڑا الزام کِس بُنیاد پر لگایا ہے؟ تو حکومتی ذریعے نے جواب دیا کہ یقیناً اٹارنی جنرل کے پاس کُچھ معلومات ہوں گی تو انہوں نے الزام لگایا۔ اِس کے بعد حکومتی عہدیدار نے گاڑی میں بیٹھ کر دروازہ بند کر لیا اور میں پارکنگ میں اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔

آج کے تحریری حُکمنامے میں اٹارنی جنرل سے الزام کا مواد طلب کرنے کے بعد اب دیکھتے ہیں کہ سوموار کو اٹارنی جنرل کیپٹن (ر) انور منصور خان اپنے الزام پر عدالت میں ثبوت جمع کرواتے ہیں یا معافی نامہ۔
مزیدخبریں