تحریکِ انصاف کی ضمنی انتخابات میں شکست، اور سینیٹ انتخابات

09:37 PM, 19 Feb, 2021

علی وارثی
اگر گذشتہ سال دنیا بھر پر بھاری تھا تو پاکستان پر بھی بھاری گزرا۔ لیکن 2021 تو خصوصی طور پر بھاری ثابت ہونا شروع ہو گیا۔ سال کے آغاز میں ہی یکے بعد دیگرے کئی مرتبہ پٹرول، گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھا کر حکومتی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے لوگوں کا جینا دو بھر کر دیا۔ مہنگائی کا عفریت جو پہلے ہی بے قابو ہوا جاتا تھا، اب بالکل ہی ہاتھ سے نکل گیا۔ لوگوں کی زندگیاں محال کرنے کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف لیکن ضمنی انتخابات میں گئی تو عوام نے بھی پورا پورا حساب برابر کیا۔ پہلے تو بلوچستان اور سندھ میں تین نشستوں پر انتخابات ہوئے تو سندھ کی دونوں نشستوں سے ملا کر PTI بمشکل 10 ہزار ووٹ ہی لے پائی۔ جس حلقے سے 16 ہزار ووٹوں سے ہاری تھی وہاں سے 40 ہزار ووٹوں سے ہاری اور جہاں چھ ہزار ووٹوں سے شکست ہوئی تھی وہاں چھ ہزار ووٹ بھی نہ لے پائی۔ اس کی اتحادی جماعت کا کچھ ایسا ہی حال پشین، بلوچستان میں ہوا جہاں جمعیت علمائے اسلام کے ووٹ تو بڑھ گئے جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کا امیدوار تین ہزار ووٹ بھی نہ حاصل کر پایا۔

اس بدترین سبکی کے بعد PTI پنجاب اور خیبر پختونخوا کے ضمنی انتخابات میں اتری تو یہاں صورتحال بڑی حد تک مختلف تھی۔ ایک تو جماعت وفاق میں حکمران ہے، دوسرے یہاں تو دونوں صوبوں میں بھی اس کی حکومت تھی۔ لہٰذا پنجاب میں سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔ جن لوگوں کی 2018 کے انتخابات تک آپس میں بنتی نہ تھی، انہوں نے بھی ایک دوسرے سے دوستیاں کر لیں اور مسلم لیگ نواز کے خلاف سیاسی اتحاد کے ساتھ ساتھ ریاستی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرنے کا فیصلہ ہوا۔ NA-75 ڈسکہ میں مسلم لیگ نواز کی امیدوار سیدہ نوشین افتخار کے خلاف گھٹیا الزامات بھی لگتے رہے، ان کے کارکنان کی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں اور بالآخر الیکشن کے دن کئی بار حلقے میں کئی جگہوں پر پولنگ سٹیشنز پر پولیس کے ذریعے پولنگ کے عمل کو بھی رکوایا گیا۔ بار بار یہ اطلاعات بھی آتی رہیں کہ پولنگ کا عمل انتہائی سست ہے۔ اس باعث کئی جگہوں پر مسلم لیگ نواز کے کارکنان اور پولیس کے درمیان تلخی بھی دیکھنے میں آئی۔ کچھ جگہوں پر ہوائی فائرنگ کر کے پولنگ کا عمل رکوا دیا گیا۔ پولنگ سٹیشنز کے باہر لمبی قطاریں موجود تھیں لیکن عمل اتنی سست روی کا شکار تھا کہ ن لیگ کے حامیوں نے دروازوں پر مکے بھی برسانا شروع کر دیے۔ خود نوشین افتخار کرسی پر چڑھ کر دروازہ کھولنے کے لئے احتجاج کرتی رہیں۔

لیکن اس سارے کھیل کے باوجود جب ڈبے کھلے تو مسلم لیگ نواز ایک بار پھر فاتح ٹھہری۔ اس سیٹ پر 2018 کے انتخابات میں PTI امیدوار علی اسجد ملحی نے 61 ہزار اور آزاد امیدوار عثمان عابد نے 57 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔ مسلم لیگ ن کے امیدوار نے یہاں 1 لاکھ 1 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس بار ملحی PTI کے امیدوار رہے لیکن عثمان عابد کی انہیں حمایت حاصل تھی۔ کہا جا رہا تھا کہ ان دونوں کے ووٹ ملا کر مسلم لیگ نواز کو شکست دینے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ لیکن آخری غیر حتمی، غیر سرکاری نتیجے کے مطابق مسلم لیگ نواز نے یہاں 1 لاکھ 58 ہزار ووٹ حاصل کیے جب کہ PTI نے 1 لاکھ 42 ہزار ووٹ حاصل کیے۔

دوسری طرف وزیر آباد PP-51 پر مسلم لیگ نواز کی امیدوار بیگم سلطان محمود نے PTI کے امیدوار کو شکست دی۔ یہاں بھی کئی لیگی کارکنان کی رات گئے گرفتاریاں کی گئیں۔ اس حلقے سے الیکشن کمیشن کا ایک اہلکار ووٹوں سے بھرا ایک تھیلا بھی چوری کرتا ہوا پکڑا گیا۔ ایک پولنگ سٹیشن پر تو 600 ووٹ ڈالے گئے اور نکلے 852۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ سب پہلی بار ہوا ہے۔ ماضی میں ن لیگ خود بھی اس قسم کی کارروائیوں کے لئے مشہور رہی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ ن لیگ یہ سب حربے استعمال کرنے کے بعد جیت ضرور جاتی تھی۔ PTI گندی بھی ہوئی اور الیکشن بھی ہار گئی۔

سب سے اہم معرکہ جس میں PTI کو شکست کا سامنا کرنا پڑا وہ PK-63 نوشہرہ کا حلقہ تھا۔ یہ صوبائی اسمبلی کی نشست دراصل سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے اس حلقے کے نیچے آتی ہے جہاں سے وہ قومی اسمبلی کے رکن بنے ہیں اور اس وقت وزیرِ دفاع ہیں۔ اس حلقے میں انہوں نے اپنی پسند کے امیدوار کو ٹکٹ دلوائی لیکن ان کے اپنے بھائی احد خٹک ان کے ساتھ نہ تھے۔ پارٹی کی لوکل قیادت نے بھی PTI امیدوار کے حق میں مہم نہ چلائی۔ دوسری طرف مسلم لیگ نواز کے امیدوار اختیار ولی خان جو گذشتہ کئی سال سے اس حلقے میں دوسری پوزیشن لیتے رہے ہیں، اس بار PDM کے متفقہ امیدوار تھے۔ انہیں اپنی جماعت کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کی حمایت بھی حاصل تھی۔ نتیجتاً انہوں نے یہ نشست بھی PTI سے چھین لی اور جہاں ن لیگ اپنے گڑھ میں تمام تر حکومتی مشینری کا مقابلہ کرنے کے باوجود فاتح ٹھہری، PTI اپنے گڑھ میں الیکشن ہار گئی۔

کرم کی قومی اسمبلی کی نسشت پر تحریکِ انصاف ایک انتہائی قریبی مقابلے کے بعد چند سو ووٹوں کی برتری سے جیتنے میں کامیاب شاید ہو بھی جائے، لیکن آج کے الیکشن نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف ملک کے چاروں صوبوں میں اپنی مقبولیت تیزی سے کھو رہی ہے۔ یہ انتخابی نتائج دیگر حلقوں کے امیدواروں کو بھی یہ پیغام دے رہے ہیں کہ حکمران جماعت کا مستقبل مخدوش ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں لہٰذا اپنا مستقبل محفوظ بنانے کے لئے اب وہ دیگر جماعتوں سے رابطے شروع کر دیں۔ اس ٹرینڈ کا اثر 3 مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخابات پر بھی پڑ سکتا ہے جہاں PDM کے متفقہ امیدوار یوسف رضا گیلانی پہلے ہی حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں۔ نوشہرہ سے مسلم لیگ نواز کی سیٹ بھی PDM کو سینیٹ انتخابات میں دو مزید نشستیں جتوانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

حکومت کے لئے آج ایک مشکل دن تھا۔ سارا دن دھاندلی اور دھونس کے الزامات لگنے کے بعد رات کو الیکشن میں ہار گئے۔ رات کو رانا ثنااللہ کو گرفتار کر لیا، مگر نتائج پر فرق نہ پڑا۔ اور اب شہباز گل اور خاور گھمن کی ٹوئیٹس دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ حکمران جماعت کے اندر اس وقت morale بدترین سطح پر ہے۔ آنے والے دنوں میں اس کا قومی سیاست پر کیا اثر پڑے گا، اس کے لئے بس تھوڑا اور انتظار کیجئے۔

مزیدخبریں