یاد رہے کہ قندیل بلوچ کو 15 جولائی 2016ء کو قتل کر دیا گیا تھا۔ مقدمے کا مرکزی ملزم مقتولہ کا بھائی وسیم ہے جسے 27 ستمبر 2019ء کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ملزم نے اعتراف کیا تھا کہ اسی نے ہی اپنی بہن قندیل بلوچ کو قتل کیا تھا۔
ملزم نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ قندیل بلوچ خاندان کیلئے بدنامی کا باعث بن رہی تھی، اس لئے میں غیرت میں آکر اسے قتل کردیا۔ مقتولہ کے قتل کا مقدمہ اس کے والد کی مدعیت میں قندیل بلوچ کے تینوں بھائیوں اور مفتی عبدالقوی سمیت چھ افراد کیخلاف درج کیا گیا تھا۔
پراسیکیوشن اور پولیس کی نااہلی مقدمہ درج ہونے کے دوسرے روز ہی سامنے آئی، جب قتل کا کوئی گواہ درج ہی نہیں کیا گیا تھا۔ مرکزی ملزم وسیم کو جسمانی ریمانڈ لینے کی بجائے جیل بھجوا دیا گیا، جبکہ اس نااہلی کا سارا ملبہ تفتیشی پر ڈالتے ہوئے اسے معطل کردیا گیا تھا۔
اس کیس کے پانچ تفیتشی تبدیل کئے گئے، بالاخر خاتون پولیس انسپکٹر عطیہ جعفری کو تفتیش مکمل کرنے کا ٹاسک دیا گیا لیکن ان کی تفتیش کے نتیجے میں گواہ عدالتوں میں اپنے بیانات سے منحرف ہو گئے تھے۔
اس کیس کا نتیجہ تو 2018ء میں ہی نکل آیا تھا جب مدعی نے مرکزی ملزم وسیم کو بھی معاف کردیا۔ ابھی اس کی رہائی کے لئے قانونی تقاضے باقی تھے کہ قندیل بلوچ کا والد انتقال کر گیا تو اس کی والدہ نے بطور مدعیہ پیروی کی اور ماں نے بھی اپنی بیٹی پر ہونے والا ظلم بھلا کر اپنے بیٹے ملزم وسیم کو معاف کردیا۔ یوں بالاخر اپنی بہن کو قتل کرنے والا ملزم آج آزاد ہو گیا۔