'اتحادیوں کو توڑنے کے لئے اشارہ چاہیے۔ اگلے ہفتے تک اشارہ آ جائے گا'

05:51 PM, 19 Feb, 2022

نیا دور
حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد کیلئے مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم یا بی اے پی کا ٹوٹنا ضروری ہے۔ جہانگیر ترین گروپ کی اہمیت ضرور ہے لیکن صرف اسے ساتھ ملا کر اس میں کامیابی نہیں ہو سکتی۔ یہ کہنا تھا سینیئر تجزیہ کار مزمل سہروردی کا۔

مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد بھی بس آنے والی ہے اور سکرپٹ کے مطابق دیگر چیزیں بھی اپنے وقت پر سامنے آئیں گی۔ اس حوالے سے حکومت کے خوف کا اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پارلیمنٹ کا اجلاس بلا کر اسے ملتوی کر دیا گیا ہے۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں اپنا سیاسی تجزیہ پیش کرتے ہوئے مزمل سہروردی کا کہنا تھا کہ ایک حکومتی اتحادی کو واضح سٹینڈ لینا پڑے گا کہ میں حکومت چھوڑ رہا ہوں۔ جس دن یہ اعلان ہو جائے گا اس دن عدم اعتماد بھی پیش ہو جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ اس اہم معاملے میں اتحادیوں سے بات چیت چل رہی ہے لیکن وہ جن اشاروں کے منتظر ہیں، سب کو بھی اس کا ہی انتظار ہے۔ سنا ہے وہ اشارہ اگلے چند دن میں آ جائے گا اور حالات بدل جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب ایمپائر کی یہ خواہش ہو کہ اسے نیوٹرل سمجھا جائے، چیزوں کو نیچرل پراسس میں ہونا چاہیے، ایسا نہ لگے کہ میں نے اشارہ کیا ہے تو پھر ایسے معاملات میں وقت لگتا ہے۔ پاکستان کے آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ ایک مرتبہ تحریک اعتماد کے بعد دوبارہ نہیں کر سکتے۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے مزمل سہروردی نے کہا کہ مسلم لیگ ن اور جہانگیر ترین گروپ دونوں ہی ایک دوسرے کی ترجیح ہیں۔ ترین گروپ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے انتخابی میدان میں اترنے کا خواہشمند ہے جبکہ ن لیگ سمجھتی ہے کہ چودھری برادران کا بوجھ اٹھانے کی بجائے ان کو ہی ساتھ ملا لیا جائے۔ لیکن ترین صاحب کے پاس شاید کوئی سکرپٹ ہے، وہ آزاد حیثیت سے انتخابات لڑ کر اسمبلیوں میں جانا چاہتے ہیں۔ اسی بات پر ابھی تک دونوں جانب سے کوئی اتفاق نہیں ہو رہا ہے۔

حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر پابندیوں پر بات کرتے ہوئے مزمل سہروردی نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی حکومت اس قسم کے آمرانہ اقدامات سے چل سکتی ہے۔ سوشل میڈیا قوانین پر پابندیاں سخت کرنے کا فیصلہ عدالت سے کالعدم ہو جائے گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ کسی کی زبان بندی کر لیں۔ تاہم میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ہمیں اس موقع پر باتیں کرنے میں احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ حکومت اس وقت کمزور ہو چکی ہے۔ اس کیخلاف عدم اعتماد آنے والی ہے۔ خان صاحب کا مزاج بھی گرم ہو چکا ہے۔ جاتے ہوئے حکمران کا غصہ بڑا سخت ہوتا ہے۔ کچھ دن ہیں ہمیں احتیاط سے گزار لینے چاہیں۔

تحریک عدم اعتماد کے معاملے پر اپنی رائے پیش کرتے ہوئے رضا رومی کا کہنا تھا کہ دو چار سیٹوں والے اتحادی کو گرانے میں کیا مسئلہ ہے۔ واٹس ایپ میسج کیوں نہیں جا رہا۔ میں تحریک عدم اعتماد کو اس لئے شک کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ واٹس ایپ والوں نے اسے اپنے فون سے ڈیلیٹ کر دیا ہے یا ابھی موبائل سیٹ کا بٹن دبانا باقی ہے۔ اگر عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی تو یہ اپوزیشن کی کریڈبلیٹی پر بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہو جائے گا۔

اس پر بات کرتے ہوئے مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ اگر بالفرض تحریک عدم اعتماد ناکام بھی ہو جاتی ہے تو اس سے عمران سرکار کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ان کی مثال ایسی ٹیم کی سی ہے جو جب تک کریز پر کھڑی رہے گی اس کا سکور کم ہوتا جائے گا۔

سوشل میڈیا پر پابندی پر ان کا کہنا تھا کہ مجھے پوری امید ہے کہ دونوں معزز ایوان اس طرح کے غیر جمہوری آرڈیننس یا قانون کو منسوخ کر دیں گے کیونکہ اس کی ضرورت ہی صرف اس لئے محسوس کی گئی کیونکہ حکومت کی کشتی اس وقت ڈولنا شروع ہو چکی ہے۔ اس کو بچانے کیلئے ہر ہتھکنڈا استعمال کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
مزیدخبریں