جہاں سیندک میٹلز لمیٹڈ (ایس ایم ایل) نامی وفاقی حکومت کی کمپنی اور ایک چینی کمپنی میٹالرجیکل کارپوریشن آف چائنا (ایم سی سی) کے درمیان معاہدہ ہے اور وہ پچھلے بیس سالوں سے سیندک میں سونا چاندی اور تانبے کے ذخائر نکال رہی ہے۔
پانچ سالہ مدت کا معاہدہ رواں سال 31 اکتوبر کو ختم ہو رہا ہے۔ تاہم حکومتِ پاکستان نے اسی کمپنی کے ساتھ 2037ء تک نئے معاہدے کی منظوری دی ہے۔
سیندک میں مجموعی طور پر تین کانیں ہیں جنہیں شمالی، مشرقی اور جنوبی مائن اور باڈیز کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پچھلے بیس سالوں سے شمالی اور جنوبی کانوں سے ذخائر نکالے جا رہے تھے، اب ان کانوں میں ذخائر بہت کم رہ گئے ہیں۔ اس معاہدے کے بعد اب مشرقی کان کی باری آنی والی ہے۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ 2010ء میں پاکستان کے پارلیمنٹ سے پاس ہونے والی اٹھارویں ترمیم میں سیندک، ریکوڈک، جزیرے، ساحل سمیت بلوچستان کے سارے وسائل اور دیگر صوبوں کے سارے ذخائر صوبوں کے ملکیت قرار دیے گئے تھے اور ان کی اختیار وفاق سے صوبوں کو منتقل کر دیے گئے تھے۔ ہر صوبے کے حکمران اپنے صوبے کے فیصلے خود کریں مگر اٹھارویں ترمیم کو بارہ سال گزرنے کے بعد بھی بلوچستان کے سیندک کا فیصلہ وفاقی حکومت کر رہا ہے۔
چینی کمپنی بتاتی ہے کہ سیندک کے اس مشرقی کان یا ایسٹ باڈی میں اس وقت 273 ملین ٹن سونے کے ذخائر ہیں۔ جس کی عوض بلوچستان کی سیلز ریونیو پانچ جو فیصد تھی جسے بڑھا کر چھ عشاریہ پانچ فیصد کر دیا گیا ہے اور کارپوریٹ سوشل رسپانسیلبٹی (سی ایس آر) بھی چھ اعشاریہ پانچ فیصد کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چاغی کے طلبہ وطالبات کے لیے ایک کروڑ سالانہ مختص کئے گئے ہیں۔
پچھلے بیس سالوں سے کام کرنے والی چینی کمپنی بلوچستان کو سیلز ریونیو اور (سی ایس آر) کی مد میں صرف پانچ فیصد دے رہی تھی اور اسی پانچ فیصد سے چاغی میں ایک بھی بوائز/ گرلز ڈگری کالج نہیں ہے۔ بلوچستان کے ضلع چاغی میں یونیورسٹی اور میڈیکل کالجز کا وجود ہی نہیں۔ پھر سوچیں، چاغی کو سیندک سے ملا ہی کیا؟
بس یہی کہ پچھلے بیس سالوں سے سیندک کے باسیوں نے سیندک کے کھربوں روپے، کرپشن کی نظر ہوتے دیکھے ہیں اور پھر انہی کرپٹ لوگوں کو حکمران بنتے دیکھا ہے اور پھر محرومی، مایوسی اور غربت دیکھی ہے۔
یہ سلسلہ دو دہائیوں سے چل رہا ہے۔ دو دہائیوں میں نہ اٹھارویں ترمیم نے شہریوں کے مسائل حل کیے اور نہ ہی وفاق نے۔
سیندک کے اصلی وارث گنگزار جو یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں کے خیال میں یہ سب کچھ وسائل کی لوٹ مار ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہاں مقامی لوگوں کے مفادات کو کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ اگر واقعی مفادات نامی لفظ وجود رکھتا ہے تو اُس کے سامنے ذاتی لکھا ہوتا ہے جسے جوڑتے ہیں تو بنتا ہے ذاتی مفاد۔
وقت نے گنگزار کو نا صرف نالاں کیا ہے بلکہ سکھایا بھی بہت کچھ ہے۔ وہ اب سیاستدان اور رہنما،ذاتی اور اجتماعی مفادات کا فرق جانتا ہے۔
اس کے خیال میں اس معاہدے میں بلوچستان کا حصہ بڑھانے سے چاغی اور بلوچستان کے عام عوام کی سماجی اور معاشی زندگی میں کچھ خاص فرق نہیں آئے گا۔ وہ سمجھتے ہیں فیصد انہی کے لیے ہوتے ہیں جن کے پاس سیندک کی خزانے کی کنجی ہے اور وہ ہمارے پاس ہے ہی نہیں۔ ہمارے ملکیت میں صرف سیندک ہے۔