ایک غیرسرکاری تنظیم کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال سامنے آنے والے خودکشی کے 96 واقعات میں 40 خواتین بھی شامل ہیں، اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے والوں کی بڑی اکثریت شادی شدہ تھی۔
این جی او کی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا کا غلط استعمال اور کم عمری کی شادیاں اس صورتحال کی بڑی وجہ کے طور پر سامنے آئی ہیں۔
این جی او کے محقق سردار بھایو کے مطابق سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے لوگوں کو بلیک میل کیا جا رہا ہے، بہت سارے بچے جنہوں نے خودکشیاں کی ہیں انہوں نے خطوط بھی لکھے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بچے بچیوں کی شادیاں ان کی پسند کے خلاف ہو رہی ہیں، کمسن عمر میں شادیاں بھی خودکشی کا ایک سبب ہے۔
رپورٹ کے مطابق خودکشی کے بہت سے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے، ورثا بدنامی کے خوف سے معاملے کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ پولیس حکام کہتے ہیں کہ ایسے واقعات میں ان کی زیادہ توجہ قتل کے امکانات پر ہوتی ہے۔
ایس ایس پی عمر کوٹ مختیار خاسخیلی کا کہنا ہے کہ لاش ملتی ہے جس میں وجہ ہلاکت غیرطبعی ہوتی ہے، اس میں انکوائری سے تحقیقات کرتے ہیں جب ثابت ہوجائے کہ قتل ہوگیا ہے تو اس کی ایف آئی آر درج کرلیتے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق مردوں میں منشیات کا عام استعمال، گھریلو تنازعات، غربت اور جنسی حراسانی بھی خود کشی کے بڑے محرکات بن رہے ہیں۔