تین دن پہلے افغان نائب صدر امر اللہ صالح نے الزام لگایا تھا کہ طالبان کی طرف سے سرحدی شہر اسپین بولدک پر قبضے کے بعد افغان حکومت نے طالبان کے خلاف فضائی کارروائی کا فیصلہ کیا تھا لیکن یہ بات جب پاکستان کے ساتھ شئیر کی گئی تو بقول امر اللہ صالح وہاں سے انہیں ’تنبیہ’ کے ساتھ ایسا نہ کرنے کا پیغام دیا گیا۔
تاہم، پاکستان کی وزرات خارجہ نے افغان نائب صدر کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ افغان حکام کی جانب سے یہ پیغام دیا گیا تھا کہ پاکستانی علاقے میں کارروائی کی جائے گی لیکن پاکستان نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور افغان حکام کو بتایا گیا کہ وہ پاکستان کی بجائے اپنے علاقے میں کارروائی کریں۔
افغانستان میں جاری امن عمل کے تناظر میں اس تناؤ کی کفیت کو بہت پہلے دونوں ممالک کی طرف سے کم کیا جانا چاہیے تھا لیکن اسلام آباد میں افغان سفیر نجیب اللہ علیخیل کی جوان سال بیٹی کا اغوا ہو جانا اور پھر چند گھنٹوں کے بعد ان کے مل جانے نے جیسے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
افغان حکومت کی جانب سے گذشتہ روز تحقیقات کا انتظار کیے بغیر اسلام آباد میں تعنیات اپنے سفیر اور دیگر سفارتی عملے کو بطور احتجاج واپس کابل بلا لیا گیا جس سے اب دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے موجود تناؤ اپنی انتہا کو چھو رہا ہے۔
اس نئے تنازعہ سے افغاستان میں امن کے لئے جاری کوششوں پر اثر پڑنے کا بھی امکان ہے۔ پاکستان نے افغان امن کانفرنس کے نام سے 17 سے 19 تک اسلام آباد میں تین روزہ کانفرنس کا انعقاد کرنا تھا لیکن یہ کانفرس افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی درخواست پر ملتوی کر دی گئی ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ کانفرنس اب عیدالاضحیٰ کے بعد منعقد کی جائے گی۔ دوسری طرف اگر سفارتی تعلقات اسی طرح برقرار رہتے ہیں تو پھر تو شاید امن کانفرنس کا انعقاد بھی کھٹائی میں پڑ سکتا ہے۔
افغان سفیر کی صاحبزادی کا دن دہاڑے اسلام آباد جیسے محفوظ ترین سمجھے جانے والے شہر میں اغوا ہونا نہ صرف انتہائی افسوس ناک ہے بلکہ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس طرح کے واقعات حکومت اور اس کے اداروں کی گورننس پر بھی ایک بڑا سوال اٹھاتے ہیں۔ اس واقعے سے پاکستان کی دنیا بھر میں بدنامی ہو رہی ہے۔
لیکن اس سے بھی بڑھ کر افسوس کی بات یہ ہے کہ اس اغوا کے معاملے سے دونوں طرف جو ’نقصان’ ہونا تھا شاید اس کو روکنے میں دونوں حکومتیں ناکام رہی ہیں۔ یا نادانستہ طورپر کچھ ایسے اقدامات لیے گئے جس سے یہ معاملہ سلجھنے کی بجائے مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔
افغان حکومت نے بھی جلدی بازی اور تیزی سے کام لیتے ہوئے تحقیقات کا انتظار کیے بغیر سخت فیصلہ کرتے ہوئے اسلام آباد سے اپنا سفارتی عملہ بطور احتجاج کابل بلا لیا ہے۔ اس سے پہلے ماضی میں بھی دونوں ممالک کے درمیان اس سے ملتے جلتے تناؤ کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ 2017 میں افغانستان میں ایک پاکستانی سفارت کار کو ہلاک کیا گیا لیکن کبھی سفارت خانہ بند کرنے جیسا سنگین اقدامات سے گریز کیا گیا۔ بلکہ اسلام آباد کی جانب سے مسائل کو دوطرفہ بات چیت کے ذریعے سے حل کرنے کی کوشش کی گئی۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کے غیر ذمہ دارانہ بیانات نے بھی مسئلے کو حل کرنے کی بجائے اسے مزید ہوا دی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ باتیں ذرائع ابلاغ پر بتانے کی تھیں کہ جو محترم شیخ صاحب کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس وڈیوز موجود ہیں، خاتون جھوٹ بول رہی ہے، ڈرامہ کر رہی ہے، افغان حکومت تحقیقات سے بھاگ رہی ہے وغیرہ وغیرہ؟ یا اس طرح کی حساس معلومات بند کمروں میں افغان حکومت کے سامنے رکھنی تھیں اور انہیں اعتماد میں لیا جانا تھا اور پھر اس پر سوچ بچار کرنا تھا کہ اب اس حالت سے دونوں ممالک کیسے محفوظ طریقے سے نکل سکتے ہیں؟
شاید وزیر موصوف کو زمینی حقائق کا علم ہی نہیں کہ یہ کوئی عام معاملہ نہیں بلکہ ایک بیٹی اور پھر ایک حکومت کی عزت کا سوال ہے جس سے ایک قوم کی غیرت و عزت بھی جڑی ہوئی ہے؟ ظاہر ہے واقعہ یہاں ہوا ہے تو پھر قدرتی طورپر ذمہ داری بھی ہماری زیادہ بنتی ہے اور اسے ہمیں ہی افغان حکومت کے تعاون سے سلجھانا چاہیے تھا۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جو بات کی جا رہی ہے کہ اس واقعے میں دشمن ملک ملوث ہے، اس بات کو اگر سچ مانا جائے تو پھر تو وہ دشمن اپنے مقصد میں کامیاب ہی ہو گیا ہے کیونکہ اس نے پاکستان اور افغانستان کو ایک دوسرے کے سامنے تو لا کھڑا کر دیا ہے؟ لیکن یہ بھی سوال ہے کہ کیا ہماری عقل کی صلاحیت صرف یہاں تک محدود ہے کہ ہم ایک دشمن کی پہچان کر سکتے ہیں اور کیا ہم اسی عقل کے ذریعے سے اس دشمن کی چال کو ناکام بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟
میں نے اس اغوا کے معاملے پر اتنی لمبی بات اس وجہ سے کی کیونکہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ میرے خیال میں اس سے افغانستان میں امن کا عمل جڑا ہوا ہے جس کے لئے پاکستان کی طرف سے یقینی طور پر بڑی کوششیں کی گئی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اسلام آباد اتنی آسانی سے اپنی کوششوں کو پانی کی نذر نہیں کرے گا۔ لہٰذا اگر اس مسئلے پر مزید غیر ذمہ داری دکھائی گئی تو مزید پیچیدگیاں اور مسائل جنم لے سکتے ہیں جس کا روکنا پھر شاید کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔