کیا مسلم لیگ ن کی پنجاب میں سیاست کے خاتمے کا نقارہ بج چکا؟

12:07 AM, 19 Jul, 2022

علی وارثی
17 جولائی کی رات مسلم لیگ ن کو پاکستان تحریکِ انصاف کے ہاتھوں اپنی سیاسی تاریخ کی سب سے بڑی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے قبل مسلم لیگ ن کو کبھی پنجاب میں اتنی بڑی تعداد میں انتخابی حلقوں سے شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ 1993 میں اسلامی جمہوری اتحاد سے علیحدگی کے بعد سے ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پنجاب کے کسی الیکشن میں ن لیگ کو محض 25 فیصد نشستیں ملی ہوں۔ 2002 کا الیکشن بلاشبہ ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے لیکن اول تو اس الیکشن کی کوئی ساکھ عوامی سطح پر موجود نہیں تھی اور ایک آمر کی ناک کے نیچے ہوئے الیکشن میں پوری سیاسی جماعت توڑ کر اس میں سے ایک علیحدہ جماعت بنا دیے جانے کے بعد ہوئے الیکشن کوئی معنی نہیں رکھتے۔

جمہوری ادوار میں ہوئے انتخابات دیکھے جائیں تو 1993 اور 2018 دو واحد انتخابات ہیں گذشتہ 30 سال میں کہ جب مسلم لیگ ن پنجاب میں حکومت نہیں بنا سکی لیکن یہ دونوں الیکشن بھی اس نے جیتے۔ پنجاب میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔ لہٰذا یہ کہنا بالکل غلط ہوگا کہ چونکہ یہ سیٹیں ماضی میں تحریکِ انصاف کی تھیں، انہیں ہی جیتنی چاہیے تھیں۔ 2018 سے ن لیگ اُس الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیتی آئی ہے، اگر یہ سیٹیں دھاندلی سے پی ٹی آئی کو دی گئی تھیں تو یہ ن لیگ کو واپس حاصل کرنی چاہیے تھیں، اور اس میں ناکامی کو اسے تسلیم کرنا چاہیے۔

اس ناکامی کی وجوہات کیا ہیں؟

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں ن لیگ کی ناکامی میں متعدد عوامل کارفرما تھے۔ سب سے پہلے اندرونی عوامل کی بات کر لیتے ہیں۔

تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد مدت مکمل کرنے کا فیصلہ

اس فیصلے کو بلاشبہ The Original Sin کی حیثیت حاصل ہے۔ 2018 انتخابات کے نتیجے میں بننے والی اسمبلی ایک ناجائز اسمبلی تھی۔ Illegitimate۔ اس کا legitimacy کا بحران عمران خان کے گلے کا طوق رہا۔ اب شہباز شریف کے حلق کا کانٹا ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ برس سے یہ معاملہ چل رہا تھا اور ہر بار یہی کہا جاتا تھا کہ عمران خان کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے بعد جو بھی شخص وزارتِ عظمیٰ کے لئے منتخب ہوگا وہ فوری طور پر اسمبلیاں تحلیل کر دے گا اور ملک نئے انتخابات کی طرف چلا جائے گا۔ لیکن 'شوقِ شیروانی' نے ایسا کرنے نہ دیا اور جب مدت مکمل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تو یہ طے تھا کہ اب عمران خان نے جس معاشی بدحالی کی بنیاد رکھ دی تھی، اس کا خمیازہ مسلم لیگ ن کو بھگتنا ہوگا۔ تمام تر مشکل فیصلے اپنے سر لے کر ن لیگ نے اپنے لئے مشکلات خود چنیں اور اس کی وجہ صرف اور صرف وزارتِ عظمیٰ کا شوق تھا۔

ڈیڑھ ماہ تک تذبذت میں رہنا

شہباز شریف صاحب 11 اپریل کو ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ یہ طے ہو ہی چکا تھا کہ اسمبلیاں اب مدت پوری کریں گی۔ اگر اسمبلیوں نے مدت پوری کرنی تھی تو مشکل فیصلے بھی لینا ہی تھے۔ یہ فیصلے لینے میں بہت تاخیر کر دی گئی۔ 11 اپریل کو ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا جاتا تو یہ کہنا آسان ہوتا کہ عمران خان کی پالیسیوں کا نتیجہ تھا۔ لیکن اس ڈر سے کہ عمران خان IMF کی غلامی کا الزام لگائیں گے، یہ فیصلہ 29 مئی تک نہیں لیا گیا۔ عوامی سطح پر یہ تاثر بنا کہ یہ فیصلے عمران خان کی وجہ سے نہیں، ن لیگی حکومت کے اپنے فیصلے ہیں۔

مئی کا تقریباً پورا مہینہ اسی شش و پنج میں گزار دیا گیا کہ اسمبلی تحلیل کر دی جائے یا حکومت جاری رکھی جائے۔ اسی اثنا میں عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا جس کے بعد سیاسی طور پر اسمبلی تحلیل کرنے کا فیصلہ مشکل تر ہو گیا۔ یوں ایک بار پھر ن لیگ عمل کے بجائے ردِ عمل میں گئی۔ اس کی وجہ یہی تذبذب تھا۔ بلاشبہ 'شوقِ شیروانی' یہاں بھی کارفرما رہا۔

بیانیے کی جنگ میں واضح شکست

مسلم لیگ ن عمران خان کے بیانیے کا مقابلہ کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔ لوگ سوشل میڈیا ٹیم کی ناکامی کو رو رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا بیانیہ بھی اوپر سے ہی بنانا پڑتا ہے۔ پی ٹی آئی کا بیانیہ عمران خان بنا رہے تھے، شہباز شریف کئی ہفتوں تک قوم سے خطاب ہی نہ کر سکے۔ اس دوران عمران خان مسلسل عوامی رابطہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ مریم نواز کو سائیڈ لائن کیا گیا۔ اب کچھ لوگ ضمنی انتخابات میں شکست کو ان کی ناکامی قرار دینا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مریم نواز کو جلسے کرنے کا جو ٹاسک دیا گیا تھا، انہوں نے بڑی کامیابی سے اسے نبھایا۔ اس شکست میں ان کا سرے سے کوئی کردار نہیں، اس کی ذمہ داری ان پر نہیں عائد کی جا سکتی۔ نواز شریف لندن میں قیام پذیر ہیں، شہباز شریف وزارتِ عظمیٰ کا تاج پہن کر وزیر اعظم ہاؤس میں مقید ہو چکے ہیں۔ حمزہ شہباز کوئی عوامی قسم کے مکرر نہیں۔ مریم نواز کی زباں بندی کروا دی گئی۔ ایسے میں بیچاری 'شوشل میڈیا ٹیم' کو الزام دینا ظلم ہے۔



یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ عمران خان کے جواب میں 'گوگی'، 'پنکی'، 'کرپشن' کے طعنے اور الزامات کیا واقعی ایک درست حکمتِ عملی ہے؟ ن لیگ گذشتہ کئی سالوں سے اپنے 'ترقیاتی کاموں' کے نام پر ووٹ لیتی رہی ہے۔ نواز شریف کے 'ووٹ کو عزت دو' کے بیانیے نے بھی اس کو عوامی پذیرائی بخشی۔ لیکن کیا عمران خان کے الزامات پر جوابی الزامات ایک بیانیے کے طور پر کارگر ہوں گے؟ فی الحال ایسا دکھائی نہیں دیتا۔

الیکشن کے دن کے انتظامات

یہ بھی ایک عجیب بات دیکھنے میں آئی ہے کہ ن لیگ جو ہمیشہ سے اپنی الیکشن ڈے کی انتظامی مہارت کے لئے مشہور رہی ہے، اس ضمنی الیکشن میں بالکل پھس دکھائی دی۔ لاہور کے علاقے دھرم پورہ سے تعلق رکھنے والے نیا دور اردو سے منسلک صحافی شہزاد سرور نے ٹوئٹر پر لکھا کہ مسلم لیگ ن کو پی ٹی آئی نے نہیں ہروایا بلکہ خود ہاری۔ میں دھرم پورہ کا رہائشی ہوں، لیگیوں نے جیتنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ پورے علاقے میں شاید ہی کسی لیگی دفتر پر گہما گہمی نظر آئی ہو۔ جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی والے بھرپور ایکٹو تھے۔ نہر کے پل سے پرانا دھرم پورہ اور دوسری جانب انفنٹری روڈ، پی ٹی آئی والوں کے قبضے میں تھا۔ علاقے کے لیگی رہنما صرف واٹس ایپ کرتے رہے کہ نکلیں اور ووٹ دیں۔ پی ٹی آئی والوں نے گھروں سے نکال نکال کر لوگوں سے ووٹ ڈلوائے۔ یہ کبھی ن والے کرتے تھے، کل انھیں کیا ہوا؟ کوئی بتا سکتا ہے۔ شہباز شریف کس بات کی شاباشی دے رہے ہیں۔ کلاس لیں ان لوگوں کی۔ الیکشن صرف باتوں سے نہیں جیتے جاتے۔



اسی حلقے کے بارے میں نیا دور کے پروگرام 'خبر سے آگے' میں بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی ماجد نظامی نے بھی کہا کہ یہاں سے پی ٹی آئی کی فتح کا مارجن قریب 6000 تھا اور اگر ن لیگ تھوڑی سی محنت کرتی تو یہ سیٹ جیتی جا سکتی تھی۔

اسی طرح ملتان سے سابق لیگی ایم این اے شیخ طارق رشید نے نیا دور کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ن لیگی ورکر گھروں سے نہیں نکلا۔ پی ٹی آئی نے بھرپور انداز میں الیکشن لڑا جب کہ ن لیگ اپنے ووٹر کو گھر سے نکالنے میں ناکام رہی اور اس کی بڑی وجہ اپنے کارکنان اور نمائندوں کی بجائے دوسری جماعت سے آئے ہوئے لوگوں کو ٹکٹ دینا تھا۔

پارٹی کے اندر دھڑے بندیاں ختم کرانے میں ناکامی

جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے، ن لیگ کے اپنے ورکر 'لوٹوں' کے لئے محنت کرنے کو تیار نہیں تھے۔ کچھ حلقوں میں تو لوگ پی ٹی آئی میں بھی چلے گئے۔ مثلاً بھکر کے عرفان اللہ نیازی ن لیگ کے عہدیدار تھے۔ انہوں نے پارٹی چھوڑی، اور پی ٹی آئی میں شامل ہو کر الیکشن لڑا اور جیت بھی گئے۔ خوشاب میں ملک محد آصف بھا آزاد کھڑے ہو گئے اور ن لیگی امیدوار امیر حیدر سنگھا سے زیادہ ووٹ لیے۔ یہ دھڑے بندیاں ہر جماعت اور ہر حلقے میں ہوتی ہیں۔ تاہم، ن لیگ کی جانب سے مختلف دھڑوں میں صلح کروانے اور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کرنے کی ذمہ دار گذشتہ کئی سالوں سے حمزہ شہباز کے ہاتھوں میں ہے۔ اس بار وہ ایسا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ باوجود اس کے کہ یہ ان کی اپنی وزارتِ اعلیٰ کا الیکشن تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں کو ن لیگ کے ٹکٹ میں اس بار وہ کشش محسوس نہیں ہوئی کہ ٹکٹ نہ بھی ملا تو کہیں اور ایڈجسٹ ہو جائیں گے۔ لوگوں نے کھل کر پارٹی کے خلاف کام کیا اور انہیں یہ ڈر نہیں تھا کہ مستقبل میں پارٹی سے ٹکٹ نہیں ملے گا۔ انہیں پارٹی کی غیر مقبولیت کا بخوبی اندازہ ہو رہا تھا۔

معاشرے کے دو بڑے طبقات سے مکمل طور پر لاتعلقی

2011 سے عمران خان خود کو نوجوانوں کے لیڈر کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ اس حکمتِ عملی کا مقابلہ کرنے کے لئے ن لیگ نے 2012 میں لیپ ٹاپ سکیم شروع کی۔ پنجاب بھر میں یوتھ فیسٹیول کروایا گیا۔ نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لئے کھیلوں کے مقابلے کروائے گئے۔ سولر لیمپ دینے کی سکیم بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ مریم نواز کو بھی ابتداً نوجوان ووٹرز کے ساتھ انگیج کرنے کے لئے ہی میدان میں اتارا گیا تھا۔ تاہم، اقتدار سے علیحدگی کے بعد مسلم لیگ ن کو سمجھ نہیں آئی کہ اب یہ کس طرح اس طبقے کو اپنی طرف متوجہ کرے۔



مڈل کلاس سے پارٹی بدستور کٹتی چلی گئی ہے۔ بیسویں صدی کی ابلاغی حمکتِ عملیاں اکیسویں صدی میں بے اثر ثابت ہوتی رہیں۔ پارٹی میں کچھ دھڑے بندی اور کچھ قد سے بڑی اناؤں کے باعث بہترین مکرر ٹاک شوز میں جانے کے لئے تیار نہیں، یہ سولو انٹرویو چاہتے ہیں۔ عوامی رابطے کے لئے ٹی وی آج بھی ایک اہم میڈیم ہے۔ خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، مشاہد اللہ خان (مرحوم) اور حنیف عباسی جیسے لیڈران ماضی میں بڑے جارحانہ لیکن مدلل انداز میں پارٹی کا مؤقف ٹی وی پر بیان کرتے رہے ہیں۔ اب یہ خود کو ٹاک شو سے بڑی سطح کا لیڈر تصور کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوان اور متوسط طبقات سے رابطہ مہم جاری رکھنے میں بھی ان کو دقت پیش آتی ہے۔ صرف مریم نواز ماضی میں اس کام میں تاک تھیں، اب وہ بھی اس میں دلچسپی لیتی دکھائی نہیں دیتیں۔ سوشل میڈیا ٹیم میں جو کام کے لوگ ہیں ان کی سنتا کوئی نہیں اور بڑے بڑے عہدے لیے بیٹھے افراد کو نہ سیاست کی سمجھ ہے نہ سوشل میڈیا کی لیکن یہ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کا سوشل میڈیا چلا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان دو طبقات یعنی نوجوان اور مڈل کلاس سے ن لیگ مکمل طور پر لاتعلق ہے اور یہ طبقات بڑی تعداد میں عمران خان کے بیانیے کے زیرِ اثر ہیں۔ ن لیگ کی ان تک رسائی نہیں۔

اس کے علاوہ بیرونی عوامل بھی اس شکست میں کارفرما رہے۔

اسٹیبلشمنٹ کا کردار

سب سے پہلے اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ماضی میں دیگر جماعتوں، خصوصاً مسلم لیگ ن کے ساتھ جس سختی سے پیش آئی ہے یا پشتون تحفظ تحریک کے ساتھ جو کچھ اس نے کیا، پی ٹی آئی بڑی حد تک اس سے محفوظ رہی۔ اسٹیبلشمنٹ کے اندر ایک بڑا دھڑا اس کا حمایتی رہا۔ نتیجتاً عمران خان کو وہ سب کچھ کہنے کی آزادی حاصل تھی جو ماضی میں کسی نے کہا تو اس پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ یہ مکمل طور پر غیر جانبدار رہی جس کے باعث عمران خان کو بے جا الزامات لگانے کی بھی کھلی چھوٹ ملی جس کے لئے ن لیگ تیار نہیں تھی۔ یہ تو طے تھا کہ ن لیگ ایک طے شدہ ڈیل کے تحت اقتدار میں آئی ہے۔ یہ بھی واضح تھا کہ اسے یہ مشکل فیصلے لینا ہوں گے۔ ایسے میں دوسری جانب سے اسٹیبلشمنٹ ہی اسے مستقل حملوں سے بچا سکتی تھی لیکن اس نے اپنے اندر کی دھڑے بندی کے باعث ایسا نہ کیا اور ن لیگ ان مشکل فیصلوں کی موجودگی میں کسی بھی حملے، الزام، دشنام طرازی کا جواب دینے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔

عدالتیں بھی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہیں۔ ان کے ماورائے آئین و قانون فیصلوں نے بھی ن لیگ کی مشکلات میں اضافہ کیا۔ تین فیصلے یہاں خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ ایک تو سپریم کورٹ کا 'نظریۂ اخلاقیات' کے تحت دیا گیا یہ فیصلہ کہ جن لوگوں نے پارٹی احکامات کے خلاف فیصلہ دیا ان کا ووٹ تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ دوسرا لاہور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ کہ پی ٹی آئی کے 20 ارکان کے ڈی سیٹ ہو جانے کے باوجود انہیں پارٹی کی پرانی پوزیشن کے مطابق 5 مخصوص نشستیں واپس کی جائیں۔ تیسرا سپریم کورٹ کا آئین میں ایسی کوئی گنجائش نہ ہونے کے باوجود 22 جولائی تک وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب مؤخر کرنا۔ ان فیصلوں نے عملی طور پر حمزہ شہباز کے اختیارات سلب کیے رکھے۔ پنجاب تین مہینے تک حقیقتاً بغیر حکومت کے چلتا رہا۔ یہاں تک کہ عوام کی نظر میں حمزہ شہباز جیسا زیرک سیاستدان بھی عثمان بزدار جیسا نکھٹو بن کر رہ گیا۔ ان عوامل نے ن لیگ کے پنجاب میں امکانات کو مزید معدوم کیا۔

عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں

عمران خان IMF سے یہ معاہدہ کر گئے تھے کہ وہ تیل کی مصنوعات پر سبسڈی نہیں دیں گے۔ نئی حکومت کو یہ وعدہ پورا کرنا تھا۔ روس اور یوکرین کی جنگ کے باعث عالمی منڈی میں تیل ریکارڈ سطح پر گیا تو پاکستان حکومت کے پاس تیل بھی نہ رہا، اسے خریدنے کے پیسے بھی IMF دینے سے انکاری رہا اور دیگر ذرائع سے سبسڈی دینا بھی ناممکن ہو گیا۔ اسی طرح روس سے گیس کے معاہدے کھٹائی میں پڑنے کے بعد یورپی ممالک نے مشرقِ وسطیٰ سے ایل این جی خریدی۔ یوں اس کی قیمت بھی پاکستان کی پہنچ سے باہر ہو گئی۔ عمران خان صاحب اپنی 'پاٹے خانی' میں 15 سالہ معاہدہ بھی ختم کر گئے تھے۔ یوں لوڈ شیڈنگ بھی بڑھنے لگی۔ تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ سیاسی غیر یقینی، IMF کی بے اعتنائی اور بڑھتی مہنگائی نے مارکیٹوں کا اعتماد تباہ کر دیا۔ ڈالر بے لگام ہو گیا۔ اور یوں شہباز حکومت دلدل میں دھنستی چلی گئی۔

عمران خان کو داد دینا نہ بھولیے

آپ اسے پراپیگنڈا کہیے یا جھوٹ، اسلامی ٹچ یا ابلاغی حکمتِ عملی۔ عمران خان نے کمال کر دیا۔ ایک ناممکن صورتحال کو اپنے حق میں موڑا۔ حکومت کی ہر غلطی کو اپنے حق میں استعمال کیا۔ اس کی ہر نالائقی سے فائدہ اٹھایا۔ ایک لمحے کو بھی اسے سکون کا سانس نہیں لینے دیا۔ نوجوانوں کو ساتھ ملایا۔ ابلاغ کے تمام ذرائع کو بروئے کار لائے۔ انہوں نے جو کچھ کیا وہ ایک علیحدہ مضمون کا متقاضی ہے۔ اسے اگلی بار پر اٹھا رکھیے۔ لیکن انہیں داد نہ دینا زیادتی ہوگی۔ عمران خان نے 30 سال میں پہلی بار ن لیگ کو ایک حقیقی چیلنج دیا اور آگے کا کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن لمحۂ موجود تک لگ یہی رہا ہے کہ وہ اسے پچھاڑنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
مزیدخبریں